i پاکستان

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس، لارجر بنچ کیلئے درخواستیں منظورتازترین

April 24, 2024

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے، بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ عید پر 20 ملزمان رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں، متفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کرائی ہے۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ رہا ہونے والے ملزمان کے خلاف اب کوئی کیس نہیں ہے؟ اعتزاز احسن نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ان ملزمان کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کیے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا بے ترتیب سا ہوا ہے، اٹارنی جنرل کی جو پرفیکشن ہوتی ہے وہ اس کیس میں نظر نہیں آئی۔ جسٹس امین الدین نے دریافت کیا کہ آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی فہرست میں ہے؟ اعتزاز احسن نے بتایا کہ وہ اس فہرست میں شامل ہے۔ بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ درخواستگزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بنچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔ اس موقع پر اعتزاز احسن اور دیگر وکلا نے عدالت سے فیصلے ریکارڈ پر لانے کی استدعا کردی، وکلا نے موقف اپنایا کہ 20 ملزمان کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے وہ ریکارڈ پر لائے جائیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی