چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عوام ہم سے چاہتے ہیں جلد سے جلد مقدمات کا فیصلہ ہوں،پیسے خرچ نہ ہوں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں ، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، کچھ لوگ پراسکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے، کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے ،اس کا فیصلہ مقننہ نے کیا ہے کہ وہ اہمیت کے حامل کیسز ہیں، ہم نے خود بھی کچھ کیسز کے احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ جلدی لگیں۔ پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس طرح کے موقعوں پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ جو براہ راست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، کچھ لوگ پراسکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا، ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، یہ بھی ختم ہوگیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم ہم نے ختم کردیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ماہانہ کاز لسٹ اب شروع ہوگئی ہے ، اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے، رجسٹرار صاحبہ کو ہدایت ہے کہ اب 2ہفتے والی کاز لسٹ بھی شائع ہونے چاہیے، کاز لسٹ سے وکلا کو بھی سہولت ہوتی ہے، لوگ چاہتے ہیں میرا کیس جلدی سے لگ جائے ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے ،اس کا فیصلہ مقننہ نے کیا ہے کہ وہ اہمیت کے حامل کیسز ہیں، ہم نے خود بھی کچھ کیسز کے احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ جلدی لگیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی