چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے معاملے پر سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے اپنے جوابی خط میں لکھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تو انہوں نے ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحیی آفریدی کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو ججز کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل نہ کرنے کی 11 وجوہات بتائیں۔چیف جسٹس نے اپنے خط میں لکھا کہ سینئر ججز سے جسٹس منیب کا رویہ انتہائی درشت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، قانون کے تحت آپ اس بات پرسوال نہیں اٹھاسکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے ۔ جسٹس منصور قانوناً آپ یہ بھی نہیں پوچھ سکتے میں تیسرا رکن کسے نامزد کروں کسے نہ کروں، تاہم، چونکہ میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا، میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، یہ یاد رہے کہ میں یہ آپ کے اصرار پر کر رہا ہوں تاکہ کوئی ناراض نہ ہو جائے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ قانون کے تحت اس بات پر سوال نہیں اٹھاسکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کریں۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا خط 4 صفحات پر مشتمل ہے جس کے مندرجات سامنے نہیں آسکے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ نے شرکت سے انکار کردیا تھا، انہوں خط لکھ کر واضح کیا کہ وہ فل کورٹ کی جانب سے آرڈیننس کے جائزے یا سابقہ کمیٹی کی بحالی تک اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں کہا تھا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنانے اور سپریم کورٹ اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے، آرڈیننس کے اجرا کے باوجود پہلے سے قائم کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ آرڈیننس کے اجرا کے چند گھنٹوں میں وجوہات بتائے بغیر نئی کمیٹی کی تشکیل کیسے ہوئی، چیف جسٹس نے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینئر ترین جج کو کمیٹی کیلئے کیوں نہیں چنا۔انہوں نے خط میں سوال کیا چیف جسٹس نے چوتھے نمبر کے سینئر ترین جج کو ہی کمیٹی کا حصہ کیوں بنانا چاہا، کیا چیف جسٹس چوتھے نمبر کے جج کو کمیٹی کا رکن بنانے کی وجوہات بتائیں گے؟ واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی