ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ اسلام آباد نے آزادی مارچ پر تھانہ کراچی کمپنی میں درج مقدمات میں سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور دیگر رہنماوں کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عمران خان، فیصل جاوید، علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی، زرتاج گل اور اسد عمر کی بریت کی درخواستوں پر جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس خان نے سماعت کی۔ وکیل نعیم پنجوتھہ، سردار مصروف اور آمنہ علی عدالت میں پیش ہوئے اور بریت کی درخواستوں پر دلائل دیئے۔ اس موقع پر اسد عمر، سیف اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ فیصل جاوید، زرتاج گل کی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی گئی۔ وکیل نعیم پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ عمران خان پر 109 کا الزام ہے کہ ان کی ایما پر ہوا، مقدمہ درج کرنے کی اتھارٹی صرف اس کے پاس ہے، جس نے دفعہ 144 نافذ کی۔ وکیل نعیم پنجوتھہ نے دلائل دیے کہ غیر مجاز شخص کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی، جس ایف آئی آر کی بنیاد ہی غلط ہو وہ مقدمہ آگے کیسے چل سکتا ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ویڈیو شواہد بھی عمران خان کی حد تک پیش نہیں کیے جاسکے، پرامن احتجاج پر بھی ایف آئی آر درج کی گئیں۔ وکیل نعیم پنجوتھہ نے موقف اپنایا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف ایک ہی نوعیت کے مختلف تھانوں میں 19 مقدمات درج ہیں، اسی نوعیت کے مقدمات میں عدالتوں نے عمران خان کو بریت دی ہے۔ وکیل نعیم پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ جو الزامات لگائے گئے اگر وہ بے بنیاد ہوں تو عدالت ملزمان کو بری کر سکتی ہے، عمران خان کے خلاف مقدمات سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے تھے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی کال پر پرامن احتجاج کیا گیا تھا، شیلنگ کی وجہ سے درختوں کو آگ لگی کسی ورکر نے کوئی آگ نہیں لگائی۔ سردار مصروف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غیر مجاز افراد کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج قانون کے خلاف ہے، خلاف قانون ایف آئی آر پر کیس نہیں چلایا جاسکتا، اسلام آباد ہائی کورٹ کا آڈر بھی موجود ہے۔ وکیل سردار مصروف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور دیگر ملزمان کو عدالت باعزت بری کرے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی