i پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ کا 13 سالہ بچے کا ای سی ایل میں نا م نکالنے کا حکمتازترین

February 24, 2025

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیضان عثمان بازیابی کیس میں 13 سالہ بچے سمیت فیملی کے 8 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کر لی۔فیضان عثمان کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت میں ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس بابر ستار سے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا عدالتی حکم پر نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا کوئی ورکنگ پیپر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، سیکرٹری داخلہ بیان حلفی جمع کرائیں اور نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے حقائق سامنے رکھیں، سیکرٹری داخلہ ایک ہفتے میں کابینہ سب کمیٹی کی رپورٹ، ورکنگ پیپر کی رپورٹ پیش کریں۔سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ سب کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے تفصیلات بھجوائی گئی تھیں، جس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا ہر چیز کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، آخر ایسا کیا تھا جو نام فہرست میں شامل کیا گیا، فیضان 18 سال کا بچہ ہے اس نے ایسا کیا کیا جو اس کیگھر ریڈ کیا، بازیابی کے بعد پتہ لگا کہ کون ملزمان تھے جو اس کے اغوا کے پیچھے تھے۔وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا ایک بچہ ہے فیملی میں جس کی عمر 13 سال ہے اس کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کر لیا گیا، جس پر عدالت نے خرم علی آغا سے استفسار کیا سیکرٹری صاحب 13 سال کے بچے کا نام بھی شامل کیا گیا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے؟

سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا میں معذرت خواہ ہوں میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، جس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا یہ معذرت کی بات نہیں، کوئی آپ کو 13 سال کے بچے کا نام بھیجیگا تو آپ ای سی ایل میں شامل کر دیں گے، اس کے اثرات ہوں گے، اس کا انجام ہو گا، آپ اپنا بیان حلفی جمع کرائیں، کسی کی ماں اور کسی کے 13 سال کے بچوں کو آپ ای سی ایل میں ڈالیں گے۔جسٹس بابر ستار کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب، کیا آپ کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا فیضان کے بہنوئی شیراز ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج ہیں، عدالت نے پوچھا کیا وہ شریک ملزم ہیں، کوئی ورکنگ پیپر ہو گا ناں، جس میٹریل کے تحت نام ای سی ایل میں ڈالا گیا، کیس اگر عدالت میں ہے تو ان کے خلاف کیا الزامات ہیں جس پر ان کے نام شامل کیے گئے، سیکریٹری صاحب، آپ نے پوچھا نہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ایجنسی کی رپورٹ پر سمری بھجوائی گئی اور باقاعدہ منظوری دی گئی، جسٹس بابر ستار نے کہا آپ نے جو سمری بھجوائی وہ دکھائیں، سمری میں کیا لکھا ہے، جس پر ان کا کہنا تھا وزارت کو انفارمیشن وصول ہوئی تھی، جس پر سمری بھجوائی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا خفیہ ایجنسی کی سفارش پر ڈاکٹر عثمان کی فیملی کے 9 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کیے گئے، جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے ای سی ایل میں والدہ اور کمسن بچوں کے نام شامل کیے گئے۔سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کابینہ کی سب کمیٹی نے 9 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنیکی منظوری دی تھی، جس پر عدالت کا کہنا تھا فیضان عثمان مسنگ تھا، 18 سال عمر ہے پھر بازیاب ہوا، عدالت میں کیس تھا، آپ نے اغوا کے ذمہ داران تلاش نہیں کیے اور یہ کام کر دیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایجنسی کی رپورٹ پر 9 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے، 7کے نام نکل گئے، اب صرف 2 ہیں، جس پر جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا سیکرٹری صاحب ایک 13سالہ بچے نے کیا کر دیا، اس کا نام بھی ڈال دیا، اگر کوئی 6 ماہ کے بچے کا نام بھیجے تو کیا وہ بھی آپ سب کمیٹی کو بھیج دیں گے، ریاست کو کیسے چلارہے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیضان عثمان کی بازیابی کے بعد اس کے اہلخانہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم معطل کرتے ہویے فیضان عثمان کی فیملی کے 8 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیدیا اور کہا کہ صرف فیضان کی شادی شدہ بہن صالحہ کا نام رہنے دیں باقی نام نکال دیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی