i بین اقوامی

جنوبی کوریا کے حکام صدر یون سوک یول کو گرفتار کرنے میں ناکام، رویہ قابلِ افسوستازترین

January 03, 2025

جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کو گرفتار کرنے کی غرض سے متعلقہ حکام ان کی رہائش گاہ میں داخل ہو گئے تاہم وہاں موجود سکیورٹی فورسز نے انہیں اندر داخل ہونے سے روک دیا جبکہ آرمی چیف سمیت گرفتار 2 فوجی افسران پر بغاوت کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کردی گئی ۔غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یون سوک یول جن کے صدارتی اختیارات پہلے ہی معطل ہو چکے ہیں، وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں یون سوک یول جنوبی کوریا کی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے صدر ہوں گے۔صدر یون سوک یول کو 3 دسمبر کو مارشل لا نافذ کرنے پر قید یا پھر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ اس اقدام کی تحقیقات کرنے والے کرپشن انویسٹیگیشن آفس (سی آئی او) نے کہا ہے کہ صدر یون سوک یول کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دئیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی او کے تفتیش کار اور اعلی پراسیکیوٹر لی ڈائی ہوان کو صدر کی رہائش گاہ میں داخل ہونے کے لیے سخت سکیورٹی کے حصار سے گزرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ مقامی نیوز ایجنسی ینہاپ کے مطابق وہاں موجود فوجی اہلکاروں نے تفتیشی ٹیم کو رہائش گاہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ بعد ازاں فوجی یونٹ نے انہیں آگے جانے کی اجازت دے تھی لیکن گھر کے اندر سکیورٹی سروس کے اہلکار موجود تھے جو یون سوک یول کے صدر ہونے کے ناطے، ان کی سکیورٹی کو یقینی بنا رہے ہیں۔

فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ کیا سکیورٹی سروس نے گرفتاری کے وارنٹ کی تعمیل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔صدر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ایسے وارنٹ جو غیرقانونی اور ناجائز ہوں ان پر عمل درآمد بھی غیرقانونی ہے۔ رواں ہفتے صدر کو حراست میں لینے کے عدالتی حکم کے بعد سے یون سوک یول نے خود کو گھر کے اندر محصور کر رکھا ہے۔ایک ماہ قبل 3 دسمبر کو صدر یون سوک یول نے ملک میں مارشل لگا نافذ کر دیا تھا۔ قوم سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ملک کو کمیونسٹ فورسز سے بچانے کے لیے کیا ہے۔تاہم اپوزیشن کی جانب سے سخت مخالفت اور عوامی احتجاج کے چند گھنٹوں بعد ہی صدر نے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔مارشل لا لگانے کے تقریبا دو ہفتے بعد 14 دسمبر کو صدر یون سوک یول کے خلاف پارلیمنٹ میں پیش کی گئی مواخذے کی تحریک کامیاب ہو گئی تھی۔دوسری جانب جنوبی کوریا کے آرمی چیف سمیت گرفتار 2 فوجی افسران پر بغاوت کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی۔ مقامی میڈیا کے مطابق جنوبی کوریا کے آرمی چیف اور اسپیشل وار فیئر یونٹ کے سربراہ کو استغاثہ نے تحقیقات کے دوران حراست میں لیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں فوجی افسران پر گزشتہ ماہ جنوبی کوریا میں لگنے والے مارشل لا میں معاونت فراہم کرنے کا الزام تھا۔ پراسیکیوٹر کے مطابق جنوبی کوریا کے چیف آف اسٹاف جنرل پارک ان سو اور اسپیشل وار ہیڈ کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل کواک جونگ کیون پر بغاوت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات تھے۔ رپورٹس کے مطابق جنرل پارک ان سو نے 3 دسمبر کو اپنے نام سے مارشل لا کے نفاذ کے احکامات جاری کیے تھے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل کواک گونگ کیون نے مواخذے کا سامنا کرنے والے سابق صدر یون سوک یول کے احکامات پر اسپیشل فورسز کو پارلیمنٹ میں بھیجا تھا تاکہ ممبران مارشل لا کے خلاف تحریک پیش نہ کر سکیں۔تمام تر اقدامات کے باوجود جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے مارشل لا کے خلاف قرارداد منظور کی جس کے باعث صدر کو کچھ ہی گھنٹوں بعد مارشل لا کے احکامات واپس لینے پڑے اور بعد میں انہیں مواخذے کی تحریک کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی