روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بارپھر دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یوکرینی فوج ڈونباس کے علاقوں سے دستبردار ہو جائے، ورنہ روس انہیں طاقت کے ذریعے آزاد کرے گا،روس اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتا، امریکا خود روس سے ایندھن خریدتا ہے، تو بھارت کے اسی حق کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے؟۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روسی صدر 2 روزہ سرکاری دورے پر بھارت پہنچے جہاں نئی دہلی ائیرپورٹ پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان کا استقبال کیا۔بھارتی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں صدر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے بھارت پر روسی تیل نہ خریدنے کے لئے با ئو پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ امریکا آج بھی روس سے جوہری ایندھن خرید رہا ہے۔ بھارت کے بھی وہی حقوق ہیں جو امریکا کے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ اگر امریکا روس سے جوہری ایندھن خرید سکتا ہے تو بھارت کو روسی تیل خریدنے پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے؟۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا تو امریکا بھارتی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرے گا۔ امریکی حکام نے الزام عائد کیا تھا کہ تیل کی فروخت روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں سہارا دے رہی ہے۔
اسی حوالے سے پوچھے گئے سوال پر صدر پیوٹن نے جواب دیا کہ باہمی تجارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف معمولی تجارتی اتار چڑھا ئو ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال کے پہلے 9 ماہ میں تجارتی حجم میں معمولی کمی ضرور آئی ہے مگر یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں۔انہوں نے بھارت کے ساتھ توانائی اور دفاعی تعاون کو دونوں ممالک کیلئے فائدہ مند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس بھارت کے ساتھ تجارتی عدم توازن کو درست کرنے پر کام کر رہا ہے۔یوکرین جنگ سے متعلق سوال پر صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ جنگ کی شروعات روس نے نہیں بلکہ یوکرین نے مغرب کے اثر و رسوخ کے تحت خطے میں کشیدگی کو ہوا دی۔انہوں نے کہا کہ روس پر جنگ مسلط کی گئی اور اب ماسکو اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی کارروائی جنگ کا آغاز نہیں، بلکہ اس کا خاتمہ ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بار پھر مطالبہ دہرایا ہے کہ یوکرینی فوج ڈونباس کے علاقوں سے دستبردار ہو جائے، ورنہ روس انہیں طاقت کے ذریعے آزاد کرے گا۔ یہ بیان ان کی بھارت میں ملاقاتوں کے دوران سامنے آیا۔ پیوٹن نے امریکی اور یورپی ثالثی کوششوں کو مشکل مگر ضروری قرار دیا، تاہم بعض تجاویز کو ناقابل قبول بھی کہا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی