امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف عالمی فوجداری عدالت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے والے یوکرینی پراسیکیوٹرز کی مدد کر رہا ہے۔ گارلینڈ نے تصدیق کی کہ روس کے حملے کے بعد ایک سال سے زیادہ عرصہ سے محکمہ آئی سی سی کی مدد کر رہا ہے،گارلینڈ نے کہا کہ کانگریس نے حال ہی میں یوکرین سے متعلق غیر ملکی شہریوں کی تحقیقات میں عدالت کی مدد کرنے کے لیے نئی امریکی لچک کی اجازت دی ہے۔ محکمہ انصاف امریکہ کے تعاون کا کلیدی حصہ ہوگا،انہوں نے ڈینور میں امریکن بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم انصاف اور احتساب کی پیروی کرنے سے پہلے دشمنی ختم ہونے کا انتظار نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر شواہد اکٹھے کرنے اور مقدمات بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کا وقت آنے پر ہم پہلے سے تیار ہوں،انہوں نے کہا کہ محکمہ انصاف نے ایک پراسیکیوٹر کو دی ہیگ میں گزشتہ ماہ کھولے گئے ایک مرکز میں خدمات انجام دینے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ جارحیت کے حوالے سے سینئر روسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنانے والے ممالک کی حمایت کی جا سکے۔ جارحیت کے جرم کی پراسیکیوشن کے لیے بین الاقوامی مرکز مشتبہ افراد کے لیے فرد جرم یا گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں کرے گا بلکہ یوکرین، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا اور پولینڈ میں پہلے سے جاری تحقیقات کی حمایت کرے گا،آئی سی سی کے پاس یوکرین میں جارحیت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا دائرہ اختیار نہیں ہے کیونکہ روس اور یوکرین نے روم کے قانون کی توثیق نہیں کی ہے۔ روم نے نے عدالت کی بنیاد رکھی تھی۔ یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہ رکھا ہے کہ یوکرین اس میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں،امریکہ بھی آئی سی سی کا رکن ملک نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ عدالت کا رکن نہیں ہے لیکن امریکہ نے ماضی میں جنگی جرائم کے معاملات پر آئی سی سی کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ خاص طور پر اوباما انتظامیہ نے مبینہ طور پر یوگنڈا اور اس کے اطراف میں لارڈز ریزسٹنس آرمی کی طرف سے کیے گئے مظالم کی تحقیقات میں ثبوت فراہم کیے تھے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی