ا قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور اموات جیسی صورت حال کہیں نہیں دیکھی۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو یتے ہوئے انہوں نے اپیل کی کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کے سات سالہ دور میں ہونے والی اس بدترین تباہی اور اموات کا سلسلہ فوری طور پر رکنا چاہیے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ سوچنا غیر حقیقی ہے کہ اقوام متحدہ غزہ کے مستقبل میں کردار ادا کر سکتی ہے، یا تو اس علاقے کا انتظام کر کے یا امن فوج فراہم کر کے ،کیونکہ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے کردار کو قبول کرنے کا امکان نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کسی بھی جنگ بندی کی حمایت کے لیے دستیاب رہے گی۔ انتونیوگوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ نے غزہ میں جنگ بندی کی کسی بھی قسم کی نگرانی کرنے کی پیش کش کی ہے، اقوام متحدہ کا مشرق وسطی میں 1948 سے ایک فوجی نگرانی مشن جاری ہے، جسے یو این ٹی ایس او کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یقینا بین الاقوامی برادری ہم سے جو بھی کہے گی ہم وہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے، سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اسے قبول کرے گا؟ انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں ہم جس سطح کے مصائب دیکھ رہے ہیں اس کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میرے مینڈیٹ میں مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اتنی اموات اور تباہی کبھی نہیں دیکھی جتنی ہم گذشتہ چند ماہ میں غزہ میں دیکھ رہے ہیں ، اسرائیل اور فلسطین کے دہائیوں پرانے تنازعے کا دو ریاستی حل نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ یہ واحد حل ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 لاکھ فلسطینی ایک ریاست میں بغیر کسی حقوق کے رہ رہے ہیں، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ہم ماضی میں جنوبی افریقہ کی طرح کے خیالات کو قبول کر سکتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ دو لوگوں کو ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں اگر وہ مساوات کی بنیاد پر نہیں ہیں اور اگر وہ احترام کی بنیاد پر نہیں ہیں لہذا اگر ہم مشرق وسطی میں امن چاہتے ہیں تو میرے خیال میں دو ریاستی حل ضروری ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک 40 ہزار 900 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اسرائیلی کارروائیوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے تقریبا 90 فیصد کو متعدد بار بے گھر کیا ہے ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی