امریکہ میں رواں سال ہونے والے انتخابات میں سینکڑوں مسلم امیدوار وفاقی، ریاستی اور مقامی سطحوں کے مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔کیئر تنظیم کے مطابق اس سال مسلم منتخب نمائندوں کی تعداد 250 سے بھی زیادہ ہو جا ئے گی۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ریاست نیو جرسی کا دیہی علاقہ ٹی نیک، اگلے ماہ ہونے والے انتخابات کے اس منظر نامے کی جھلک پیش کر رہا ہے جس کا رجحان پورے ملک میں دکھائی دے رہا ہے۔تقریبا اکیالیس ہزار نفوس پر مشتمل ٹان ٹی نیک میں دو مسلمان خواتین مقامی عہدوں کے لیے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ٹی نیک کی رہائشیوں کی خاصی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔امریکہ میں اس سال کے الیکشن میں سینکڑوں مسلم امیدوار وفاقی، ریاستی اور مقامی سطحوں کے مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ماضی میں ایک مسلمان ٹی نیک کے میئر رہے چکے ہیں لیکن ابھی تک سٹی کونسل میں منتخب نہیں ہوئی۔بھارتی نژاد ریشم خان اس سال سٹی کونسل میں رکن بننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سینتالیس سالہ ریشم خان نے کہا کہ الیکشن میں شرکت ان کے لیے مسلم ہونے کی حیثیت سے بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ایک اور مسلم خاتون نادیہ حسین ، جو کہ ٹرینی ڈاڈئین ہائی سکول میں ٹیچر ہیں، ٹی نیک کے مقامی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ علاقے میں کسی اسکول بورڈ میں منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔ریشم خان اور نادیہ حسین دونوں حجاب پہنتی ہیں۔ وہ مسلمان امیدواروں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد میں شامل ہیں جو اس نئے رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ امریکہ کی دوسری کمیونیٹیز میں بھی یہی رجحان نظر آر ہا ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے نادیہ حسین نے کہا، ایک کہاوت ہے کہ اگر آپ کھانے کی میز پر موجود نہیں ہیں تو پھر آپ مینیو پر ہوں گے، لہذا شمولیت بہت ضروری ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 35 لاکھ ہے جو کثیرالقومی ہے یعنی یہ مسلمان دنیا کے مختلف حصوں سے امریکہ آئے ہیں۔
اگرچہ ان میں اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ووٹ دیتی ہے، تاہم حالیہ انتخابات میں بہت سے لوگ ری پلیکن پارٹی کی طرف بھی مائل ہوئے ہیں۔ماضی میں خال خال ہی کوئی مسلمان منتخب عہدوں پر نظر آتاتھا لیکن حالیہ سالوں میں ان کی نمائندگی عام ہوتی دکھائی دی ہے۔مسلمانوں کی سیاست میں زیادہ بڑ ے پیمانے پر شرکت کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں جن میں اسلامو فوبیا کے متعلق تشویش اور سیاست میں نمائندگی شامل ہیں۔مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر نورا صدیق کہتی ہیں کہ مسلمان ووٹروں کے ساتھ ساتھ مسلمان امیدواروں کی بھی زیادہ سے زیادہ میں شرکت کا رجحان ہے۔بعض ماہرین کے مطابق مسلمانوں کی سیاست میں زیادہ شرکت کا آغاز 2018 سے ہوا جب الہان عمر اور رشیدہ طلیب امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والی پہلی مسلمان نمائندہ بن گئیں۔ان کے ساتھ ساتھ مقامی سطحوں میں مسلمان امیدواروں کے سامنے آنے سے سیاست میں مسلمانوں کی شرکت کی ایک لہر نے جنم لیا۔ امریکی مسلمانوں کی تنظیم کیئر ایکشن کے ایگزیکیٹو ڈئریکٹر باسم الکارا کا کہنا ہے کہ ہر الیکشن دور میں انتخاب میں حصہ لینے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ سال، امریکی ۔ اسلامی تعلقات کے فروغ کے لیے کام کرنے والی سول رائٹس کی تنظیم کیئر کے اعداد و شمار کے مطابق، مسلمان منتخب اہلکاروں کی تعداد 235 تھی۔ اس تعداد میں ریاست نیو جرسی میں منتخب ہونے والے 50 ارکان بھی شامل تھے۔کیئر کے مطابق اس سال مسلم منتخب نمائندوں کی تعداد 250 سے بھی زیادہ ہوجا ئے گی۔اس تعداد میں زیادہ تر اضافہ مقامی الیکشنز میں نظر آیا ہے ۔ اگرچہ سٹی کونسل کے ایک رکن کے پاس امریکی کانگریس کے نمائندے کے برابر اختیارات تو نہیں ہوتے لیکن امریکہ، جہاں سیاست کو مقامی ہی سمجھا جاتا ہے، ان مقامی مقابلوں سے مقامی کمیونیٹیز پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی