روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مغربی ممالک کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان میں دم ہے تو وہ ''میدان جنگ میں '' روس کو شکست دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین میں ماسکو کی مداخلت نے ''کثیرالجہتی دنیا'' کی جانب ایک نئی تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔پوٹن نے یوکرین میں جنگ کے حوالے سے کہا کہ روس نے تو بمشکل ابھی شروعات ہی کی ہے اور انہوں نے مغرب کو چیلنج کیا کہ ہو سکے تو جنگ میں وہ شکست دینے کی کوشش کریں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی روسی رہنما نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ ماسکو اب بھی امن مذاکرات کے لیے تیار ہے۔یوکرین پر ماسکو کے حملے کے چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد روسی صدر نے پارلیمانی لیڈروں کے سامنے سخت لہجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ''تنازعہ جتنا طویل ہوتا جائے گا، کسی بھی مذاکرات کے امکانات بھی اتنے ہی معدوم ہوتے جائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ہم نے آج یہ سنا ہے کہ وہ ہمیں میدان جنگ میں شکست دینا چاہتے ہیں۔ تو آپ کیا کہہ سکتے ہیں؟ 'انہیں کوشش کر لنے دو۔انہوں نے کہا ہم نے کئی بار سنا ہے کہ مغرب یوکرین میں ہمیں آخری حد تک لڑانا چاہتا ہے۔ یوکرائنی عوام کے لیے تو یہ ایک المیہ ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ اسی جانب ہی بڑھ رہا ہے۔روسی صدر نے مغرب پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ مغربی ممالک پابندیوں کے ذریعے روسی معیشت کو نقصان پہنچا کر اور یوکرین کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ کر کے اس کے خلاف پراکسی جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ روس جنگ کے معاملے میں پیش قدمی کر رہا ہے اور اب بھی مذاکرات کے امکانات روشن ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ، مجموعی طور پر، ہم نے ابھی تک سنجیدگی سے کچھ بھی شروع نہیں کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہم امن مذاکرات کو مسترد بھی نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ انہیں مسترد کر رہے ہیں انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جتنا ہی طویل ہوتا جائے گا، ان کے لیے ہمارے ساتھ مذاکرات کرنا اتنا ہی مشکل بھی ہو جائے گا۔
انڈونیشیا کے شہر بالی میں آج سے جی 20 اجلاس شروع ہو رہا ہے اور اس موقع پر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں انڈونیشیا نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مرصودی نے کہا، ''یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جنگ کو جلد از جلد ختم کریں اور اپنے اختلافات کو میدان جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر حل کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ جی 20 کے میزبان کے لیے یہ ضروری ہے کہ ''ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو ہر کسی کے لیے آرام دہ ہو۔'' انہوں نے یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب، 24 فروری کے بعد، ''دنیا کے تمام بڑے رہنما ایک کمرے میں ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں بھی یوکرین پر غلہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔برطانوی وزیر اعظم جانسن کے ایک ترجمان نے ان کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے اعلان کے بعد یہ بات کہی ہے۔ ترجمان نے جانسن اور یوکرین کے صدر کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد کہا کہ صدر زیلنسکی نے یوکرین کے بارے میں فیصلہ کن اقدام پر جانسن کا شکریہ ادا کیا اور کہا، ''یوکرائنی عوام برطانیہ کی کوششوں کے لیے شکر گزار ہیں۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی