نائب امیر جماعت اسلامی مجلس قائم سیاسی ترقی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قانون سازی کے عمل کو 26 آئینی ترمیم کے لیے بد نیتی آئین کے متصادم اور عدلیہ کو زیر کرنے کے عمل کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے آئینی ترمیم بل لائے جانے پر اپوزیشن جماعتوں سے کہا تھا کہ کہ بد نیتی پر مبنی آئینی ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے اور اس معاملہ میں مذاکرات کا حصہ نہ بنا جائے۔سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کے لیے حکومت نے عدلیہ پر حسب ضرورت مرحلہ وارحملہ آور ہونے کے لیے تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑی ہے۔انہوں ن یکہا عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کو کم کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا قانون کالا قانون ہے۔ پاک افواج سے متعلق ترامیم بھی پارلیمنٹ کی بیبسی اور غلامی کی بدترین مثال ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے جمہوریت پسند قوتوں اور آئین کی بالا دستی کا مشن رکھنے والی تمام قوتوں اور اسٹیک ہولڈرز کوہر سیاست سے بالا تر ہو کر قومی کردار ادا کرنا ہو گا۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے آج 6 نومبر کو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ ملکی حالات،کالے قوانین اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔لیاقت بلوچ نے چیف جسٹس آف پاکستان یحیی آفریدی سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر فل کورٹ اجلاس کیا جائے اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے ملک کا اعلی ترین ادارہ سپریم کورٹ بر وقت اپنا کردار ادا کرے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی