اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک تجزیے کے مطابق صرف توانائی فراہم کرنے والی خوراک کی یومیہ قیمت بلوچستان کے دیہی علاقوں میں 18 روپے فی کس جبکہ شہری سندھ میں 32 روپے فی کس ہے۔ جاری کردہ فِل دی نیوٹرینٹ گیپ(یف این جی) تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں صرف 5 فیصد آبادی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے۔پاکستان کے بارے میں یہ تجزیہ 13 ممالک میں کی جانے والی کیس اسٹڈیز کا حصہ ہے۔ ایف این جی ایک ایسا طریقہ کار ہے جو غذائیت سے بھرپور غذا کی لاگت اور استطاعت کا تخمینہ لگاتا ہے اور اسے مقامی خوراک کے نظام اور ماحول پر ثانوی اعداد و شمار کے ساتھ جوڑتا ہے۔خوراک کی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے والی غذا کی یومیہ لاگت کافی زیادہ تھی، جو دیہی خیبر پختونخوا میں 67 روپے فی کس سے لے کر شہری سندھ میں 78 روپے فی کس تک تھی۔تمام صوبوں میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی عدم استطاعت زیادہ تھی، اوسطا 66 فیصد آبادی غذائیت سے بھرپور خوراک خریدنے کی متحمل نہیں تھی، دیہی کے پی میں عدم استطاعت 59 فیصد سے لے کر دیہی بلوچستان میں 84 فیصد تک ہے۔
ایف این جی کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ نوعمر لڑکیوں، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو مخصوص غذائی اجزا جیسے آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامن بی 12 کی نسبتا زیادہ ضروریات ہوتی ہیں۔ماڈل گھرانے میں اس کی عکاسی نوعمر لڑکی اور دودھ پلانے والی خاتون سے ہوتی ہے، جن پر گھر میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے دو سب سے زیادہ اخراجات آتے ہیں،یہ سندھ میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی گھریلو لاگت کا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔خاندان کے دیگر افراد کے مقابلے میں 12سے23 ماہ کی عمر کے بچوں پر غذائیت سے بھرپور خوراک کے اخراجات سب سے کم آتے ہیں کیونکہ وہ کم کھانا کھاتے ہیں، اور ماں کے دودھ کو مثالی خوراک تصور کیا جاتا ہے جو ان کی غذائی ضروریات کا ایک بڑا حصہ ہوتی ہے۔تاہم، اس عمر کے بچے غذائیت کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے چھوٹے معدے کا مطلب ہے کہ انہیں کھانا زیادہ فریکوئنسی پر فراہم کیا جانا چاہیے اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہیں غذائیت سے بھرپور خوراک مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ایف این جی کے تجزیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس عمر کے دوران غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی تاحیات نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی