اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان نے یمن کے بحران کے حل کے لیے سیاسی مذاکرات کی اپیل کردی۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سلامتی کونسل میں یمن کے تنازع میں شامل تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ مسائل کے پر امن حل کے لیے یمن کے عوام کی شمولیت سے سیاسی عمل کو ترجیح دیں۔پاکستان نے اقوام متحدہ اور علاقائی کوششوں، خصوصا سعودی عرب اور عمان کی جانب سے یمن کے تنازع کو طے کرنے کے لیے متفقہ فریم ورک کے تحت سیاسی حل کی حمایت کی ہے۔یمن پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بریفنگ کے دوران اپنے بیان میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے یمن میں انسانی بحران کو دنیا کے شدید ترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ وہاں تقریبا آدھی آبادی یعنی ایک کروڑ 70 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جب کہ 35 لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔پاکستانی مندوب نے حوثیوں کی جانب سے اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے کارکنان کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا، جو کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔پاکستان نے یمن کے شہری انفرا اسٹرکچر، بشمول صنعا انٹرنیشنل ایئرپورٹ، بحیرہ احمر کی بندرگاہوں اور بجلی گھروں پر اسرائیلی فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں نے یمن کے سنگین انسانی اور سیاسی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ ہم بحیرہ احمر میں تجارتی اور بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں پر بھی گہری تشویش رکھتے ہیں، جو عالمی تجارت، علاقائی استحکام اور ماحولیات کے لیے خطرہ ہیں۔پاکستان کے مستقل مندوب نے کہا کہ یمن میں طویل تنازع نے ایک کثیر الجہتی بحران کو جنم دیا ہے، جس میں معاشی زوال، موسمیاتی اثرات اور جدید تاریخ کے بدترین انسانی بحران شامل ہیں۔انہوں نے دسمبر 2023 کے امن مذاکرات میں ہونے والی اہم پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات سے ایک ملک گیر جنگ بندی کے ذریعے دشمنیوں کو روکنے کے اہم معاہدے کیے گئے۔منیر اکرم نے ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے، ایک روڈ میپ تیار کرنے اور پائیدار امن کے فروغ کے لیے وعدوں پر مکمل عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا۔پاکستانی سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کو یاد دلایا کہ یمن کی صورتحال کو وسیع تر علاقائی حرکیات (broader regional dynamics)، بشمول غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی حملے سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا۔انہوں نے انسانی بحران کے حل کے لیے ایک مضبوط اور مربوط بین الاقوامی کوشش کی ضرورت پر زور دیا اور ڈونر ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ یمن کے لیے 2025 کے انسانی ردعمل کے منصوبے میں اپنی معاونت میں اضافہ کریں۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی