آصفہ زہرہ
انسان ہزاروں برس سے زمین پر آبادہے۔اورانسان کےکارناموں میں اسکی آباد کی گئی تہذیبوں کا ذکرہمیشہ ہوگا۔ حضرت انسان نےجن قدیم تہذیبوں کوجنم دیا ان میں چار تہذیبیں سب سےقدیم ہیں۔مصری تہذیب، دریائے سندھ کی تہذیب، چینی تہذہب اورمیسوپوٹینا کی تہذیب جو کے سب سے قدیم ترین ہے۔انسان نے ان قدیم تہذیبوں میں نئے شہر بسائے،تعمیرات کی اوردیہی اور شہری زندگی کی بنیاد ڈال دی۔ شہر میں رہنے کا مطلب ہے بہترترقی کے مواقع ، بہتر صحت، تعلیم، نقل و حمل اور مواصلاتی سہولیات۔ معاشی ترقی جس سے شہروں میں مارکیٹوں اور کاروباری مراکز کے ساتھ زیادہ اقتصادی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی۔ اور ان سب سہولیات نے لوگوں کو دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کرنے پر راغب کیا جس سے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہوا اور ان کے مسائل بھی بڑھ گئے۔ ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف قدرتی وسائل پر دباؤ پڑابلکہ ارد گرد کے علاقوں میں بھی اضافہ ہوا منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتیں اگر آبادی کےاضافےسے ہم آہنگ نا ہو تو آہستہ آہستہ شہروں کی ترقی انسانی معیار زندگی کی تنزلی کی وجہ بن جاتی ہے۔ اگر شہروں کی آبادکاری کو بےہنگم رہنے دیا جائے تومعاشی ترقی کی ٹھنڈک ایک وقت شہر کوگرم تندور میں بدل دیتی ہے۔ شہری کاری یا اربنائزیشن، آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ لوگوں کے معمولات زندگی توانائی کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں جس کے زیادہ تر اثرات انسان اور ماحول پر منفی مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کےیو این ڈی پی کے مطابق جنوبی ایشیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اربنائزیشن کا عمل سب سے زیادہ تیزی سے بڑھا ہے۔ سال،1990سے2008 کے دوران پاکستان کی شہری آبادی کل آبادی کا 36فیصدتھی۔ پاپولیشن ڈیویشن کے اندازے کے مطابق 2025 تک ملک کی آدھی آبادی شہروں میں آبادہوجائے گی اس شہری کاری کے عمل کا ماحول پر نمایاں اثر پڑتا ہےجیسے جیسے شہر بڑھتے ہیں، وہ قدرتی مناظر کو عمارتوں اور سڑکوں سے بدل دیتے ہیں۔ عام زبان میں شہری ترقی کانکریٹ کا جنگل بنارہی ہے۔قدرتی جنگل(درخت،پودے) گرمی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اثر کہا جاتا ہے۔ لیکن اینٹ گارا ایک ایسا رجحان پیدا کرتا ہے جسے اربن ہیٹ آئی لینڈ یہ شہروں کو آس پاس کے دیہی علاقوں کی نسبت نمایاں طور پر گرم بناتا ہے۔۔۔اس کی سب سے عام مثال شہروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے جس نے شہروں کو جلتے تندور میں بدل دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کے بیشتر شہر ہیٹ ویو کےزیر اثر ہیں۔ایک وقت تھا جب سبی،تربت اور جیکب آباد کو پاکستان کےگرم ترین علاقہ تصور کیا جاتا تھا۔آج جیکب آباد ہو،سبی،ملتان،ساہیوال،فیصل آباد،اسلام آباد یا کراچی سب کےسب ہر گزرتے دن کےساتھ گرم ترین شہروں میں بدل رہےہیں۔ ایشیا پیسیفک نیٹورک فار گلوبل چینج ریسرچ کا کہنا ہے گزشتہ 50 سالوں میں پاکستان میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں تقریباً 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ 30 سالوں میں ہر سال گرمی کی لہر کے دنوں کی تعداد میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ صدی کے اختتام تک پاکستان کا درجہ حرارت میں اندازا 3 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہوجائےگا۔ پاکستان کے بڑے شہر گزشتہ دو دہائیوں سے اربن ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں ان میں کراچی اور لاہور سرفہرست ہیں۔ کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کے ناطےسب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔سال 2015 میں ہم اربن ہیٹ آئی لینڈ اثر کا تجربہ کر چکےہیں جس نے کراچی شہر میں2000 زندگیاں نگل لیں۔تیزی سے پھیلتے شہر نے سبز مقامات کو بلند عمارتوں میں بدل دیا،آم،پیپل،نیم،بیری، بیل پتھراوربادام کے درختوں کی جگہ اب سیمنٹ کی فٹ پاتھ ہیں۔ صنعتی اور گاڑیوں کے ہجوم نے اس اثر میں اور اضافہ کر دیا ہے۔مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی کا درجہ حرارت آس پاس کے دیہی علاقوں سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک زیادہ ہوگیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور بھی اربن ہیٹ آئی لینڈ کے رجحان سے متاثر ہوا ہے۔ زرعی اراضی کو رہائشی اور تجارتی علاقوں میں تبدیل کرنے کے ساتھ شہر کی توسیع، پودوں کے احاطہ میں کمی اور ناقص شہری منصوبہ بندی نے لاہور کا درجہ حرارت قریبی دیہی علاقوں سے 3-4 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ کر دیا ہے۔ یہی نہیں لاہور کا شمار ناقص آب وہوا والے شہروں میں بھی ہونے لگا ہے۔ وہ شہر جس کی پہچان کبھی اس کے باغوں سے ہوتی تھی اب فضائی آلودگی اسکی پہچان بن گی ہے۔
سال2024 کی آلودہ ترین شہروں کی درجہ بندی میں لاہور شہر کا دوسرا نمبر تھا گزرے دس سالوں میں لاہور اور کراچی تسلسل کے ساتھ آلودہ شہروں کی فہرست کاحصہ ہیں۔ شہری کاری یا اربنائزیشن کے منفی اثر نےفیصل آباد پربھی اثر دیکھایا ہے۔ راولپنڈی کا درجہ حرارت آس پاس کے علاقوں سے 2-3 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھاہے۔ ملتان کا درجہ حرارت شہر کے آس پاس کے دیہی علاقوں سے تین سےچاردرجہ زیادہ ہواہے۔اربن ہیٹ آئی لینڈ کے اثرات ان شہروں میں بسنے والے رہائشیوں کے لیے توانائی کی طلب میں اضافے، صحت عامہ کے خطرات اور ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے چیلنجز کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو پائیدار شہری منصوبہ بندی کی فوری ضرورت ہے۔جس کے تحت آنےوالے سالوں میں مزید بدتر ہوتی صورتحال سے بچنا ہوگا۔ گزشتہ برس عالمی جریدے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس نے بتایادنیا کے 100 بدترین آلودہ شہر ایشیا میں ہیں اور ان میں سے 83 صرف بھارت میں ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا تھاکے موسمیاتی بحران نے ہوا کے خراب معیار میں اہم کردار ادا کیا ہے جو دنیا بھر میں اربوں لوگوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اسی طرح آئی-کیو-ائیر کی رپورٹ کے مطابق خطے میں بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت اور تاجکستان خطے کے آلودہ ترین ملک ہیں۔اور اس رپورٹ نے بھی لاہور شہر کو دنیا کا پانچواں آلودہ ترین شہر کا درجہ دیا۔ لوگ،ترقی اور خوشحالی کے اندیکھے مستقبل کے لیے شہروں کا رخ کر رہے اور شہروں میں منصوبہ بندی کے فقدان نے جس گرمی اور آلودگی کے جن کوبوتل سے باہر نکالا ہے اس کو کیسے دوبارہ واپس کیا جائےاسکےلیےفوری اوردیرپا منصوبہبندی کی ضرورت ہے۔ اربن ہیٹ آئی لینڈ اثرات سے بچنے کے لیے ہمیں اپنی طرز تعمیر کو بدلنا ہوگا انھیں سبزعمارتوں میں ڈھالنا ہوگا، رہائشی اور تجارتی عمارت کی جگہ کا کم از کم بیس فیصد حصہ ہریالی کے لیے مختص کرنا ہوگا،ہمیں روف گارڈرن اور بالکنی گارڈن کی طرف جانا ہوگا،شہر کی فٹ پاتھ اور دیگر مقامات کو سرسبز بنانا ہوگا۔
پارکوں پر،سڑکوں کے کناروں اور غیر استعمال شدہ فٹ پاتھوں پر درمیانے سے بڑے درخت لگاناہونگےجوگرم آب و ہوا کے لیے موزوں ہوں۔اسی کے ساتھ چھت پر بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا جامع منصوبہ بنانا ہوگا جسے واٹر ہارووسٹنگ کہا جاتا ہے۔اسی طرح ایئر کنڈیشنرز کے پانی کو قابل استعمال کرنا ہوگا، ڈرپ اریگیشن، مسٹنگ شاورز، یا وقفے وقفے سے چھڑکنے والے عمل کا استعمال شروع کرنا ہوگا۔ آبپاشی کے لیے مساجد کے وضو کے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے طریقے کو اپنانا ہوگا۔ہمیں،سورج کی روشنی کو منعکس کرنے اور حرارت کے جذب کو کم کرنے کے لیے عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے پر ہلکے رنگ کے پینٹ کا استعمال کرنا ہوگا ،پائیدار طرز عمل کو اپناتے ہوئے روایتی کھڑکیوں کو ڈبل گلیزڈ شیشے سے بدلنا ہوگا۔ ہمیں جلدازجلد الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو رائج کرنا چاہے ساتھ ہی ہیٹ ٹریپنگ کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کارپولنگ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنی چاہے مختلف ممالک اس پر عمل درآمد کررہے ہیں اور اس سے فرق پڑا ہے۔ہمیں گرین بلڈنگ ڈیزائن اپنانا ہوگا، جس کے تحت نئی تعمیر میں سبز عمارت کے اصولوں کو ترجیح دیںا ہوگی۔توانائی کی کارکردگی، وینٹیلیشن، روشنی، پانی کے تحفظ، اور آلودگی میں کمی پرفوری توجہ دینا ہوگی۔اگر ہم یہ تمام اقدامات ناٖفذ کرتے ہیں توشہروں کے بڑھتے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روک سکیں گے۔ہمارا معاشرہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔پاکستان کے پاس مسائل کا حل دینے والے ایکسپرٹ بھی موجود ہیں اوردنیابھر کی کامیاب مثالیں بھی اب وقت ضائع کرنے کے بجائےہمیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے شہروں کو نئے سرے سے موجودہ موحولیاتی ضروریات کےمطابق ڈھالنا ہوگا ۔ نئے قوانین بنانے کےساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد کروانا ہوگا۔کراچی،لاہور،ملتان،فیصل آباد، راولپنڈی،اسلام آباد ،پشاوراورکوئٹہ کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا ہونگےتاکہ بڑے شہروں پر آبادی کا بوجھ کم ہو۔
موجودہ شہروں میں ترقی کی راہیں کھلیں اور ان شہروں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچایا جاسکے۔اسکےساتھ شہروں میں خصوصا کراچی اورلاہور میں بازارصبح کے اوقات میں کھولے جائیں،سورج کی روشنی کا استعمال کیا جائے،حکومت توانائی کے موثر آلات اور روشنی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرے،ویسٹ مینجمنٹ کا بندوبست کرے،کچرے کو جلانے اور میتھین کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ کے بنیادی ڈھانچے کوفوری طور پربہتر بنائیں ساتھ ہی کوشش کی جائے کے قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، ہوا، اور پن بجلی کی طرف منتقل ہو جائیں اس پر ٹیکس لگانے کے بجائے ٹیکس چھوٹ دی جائے، پانی کی ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال سمیت موثر پانی کے انتظام کے نظام کو تیار کریں اور لاگو کریں۔ پائیدارترقی کےلیے فوری قوانین بنائے جائیں، انھیں ناٖفذ کیاجائےاورخلاف ورزی پر جرمانہ یا سزاتجویزکی جائےفوری طور پر اربن پلاننگ کے زریعے ایسے گھروں کی تعمیرات پرروک لگائی جائے جہاں ہوا اور قدرتی روشنی کا بندوبست نا ہو۔ بھارت کے اسمارٹ سٹی مشن کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے پورے بھارت سے سو شہروں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ان سو شہروں کو جدید اور ترقی یافتہ بنایا جائے اسی طرز پر ہم بھی پورے ملک سے کم از کم 50 زیادہ آبادی والے شہروں کو جدید بنانے، ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ماحؤلیاتی تبدیلی سے نمٹنے،اربن ہیٹ آئی لینڈاثرات سے بچاو کے لیے اقدامات کرنا ہونگےیاد رہے پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہےجوموسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں۔قومی موسمیاتی تبدیلی2012کےتحت جوگائیڈلائن تجویزکی گئی اورطےکیاتھاکےسال2030تک پاکستان 20فیصد گرین ہاوس گیسوں کا اخراج کم کرےگا۔ اب وقت گزارنے کے بجائے فوری عمل درآمد وقت کی ضرورت ہے نا اب سونامی منصوبے چلیں گے نا ہی شوبازی پروجیکٹ کے لیے وقت ملے گا۔ اب پائیدار اور دیرپا منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جس پر آتی جاتی حکومتیں اثر انداز نا ہوسکیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی