i پاکستان

پاکستان اپنے کل رقبے کا صرف0.07 فیصد شمسی توانائی کے لیے استعمال کر کے بجلی کی طلب پوری کر سکتا ہےتازترین

August 04, 2022

پاکستان اپنے کل رقبے کا صرف0.07 فیصد شمسی توانائی کے لیے استعمال کر کے بجلی کی طلب پوری کر سکتا ہے،ملک میں پن بجلی کی صلاحیت 40ہزار میگاواٹ،سولر پینلز کی درآمد پر عائد 30 فیصد ٹیکس ختم ،تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق توانائی کی پیداوار کے لیے مقامی وسائل کے استعمال سے پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ شمسی، ہوا اور پن بجلی کے وسائل اپنی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ عہدیدار وزارت توانائی اور پاور ڈویژ ن ا حتشام الحق نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ حکومت نے حال ہی میں سولر پینلز کی درآمد پر عائد 30 فیصد ٹیکس کو ختم کر دیا ہے اوربجلی کی بچت کے لیے تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اپنے کل رقبے کا 0.07 فیصد شمسی توانائی کے لیے استعمال کر کے اپنی بجلی کی طلب کو پورا کر سکتا ہے جبکہ پن بجلی سے 40,000 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پاکستان کی توانائی پالیسی جسے انڈیکیٹیو جنریشن کیپسٹی ایکسپینشن پلان 2021-2030 کے نام سے جانا جاتا ہے نے بجلی کی پیداوار کے لیے مقامی وسائل کو بروئے کار لانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔یہ منصوبہ 2030 تک نیشنل گرڈ میں 13,148 میگاواٹ بجلی کے اضافے کا لائحہ عمل دیتا ہے۔ ملک کی موجودہ پن بجلی کی پیداواری صلاحیت 9,873 میگاواٹ ہے۔ آئی جی سی ای پی کے مطابق ملک کی پن بجلی کی پیداواری صلاحیت کو 2025 تک 14,353 میگاواٹ اور 2030 تک 23,036 میگاواٹ تک لے جایا جائے گاجو کہ مختلف وسائل سے پیدا ہونے والی کل بجلی کا 43 فیصد ہوگاتاہم پلان میں طے شدہ اہداف کو حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ملک میں مختلف ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بالخصوص میڈیم اور میگا سکیموں کی تکمیل پہلے سے ہی طے شدہ وقت سے پیچھے ہے۔

پاکستان میں اس وقت 18 چھوٹے، بڑے اور درمیانے درجے کے ہائیڈرو پاور سٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ کئی دوسرے چھوٹے پن بجلی گھر بھی مختلف صوبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان پاور اسٹیشنوں کا انتظام پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ،صوبائی حکومتیں اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کرتے ہیں۔ انہیں نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ تربیلا پاور سٹیشن کی دوسری اور تیسری توسیع 3,478 میگاواٹ جبکہ اس کی چوتھی توسیع سے 1,410 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ غازی بروتھا پاور سٹیشن کی صلاحیت 1450 میگاواٹ، منگلا 1000 میگاواٹ، نیلم جہلم 969 میگاواٹ، ورسک 243 میگاواٹ، چشمہ 184 میگاواٹ، پترینڈ 150 میگاواٹ، گلپور 102 میگاواٹ، گولن گول 108میگاواٹ، جناح 96 میگاواٹ، نیو بونگ 84 میگاواٹ، مالاکنڈ تھری 81 میگاواٹ، خان خوڑ 72 میگاواٹ، درال خواڑ 37 میگاواٹ، جاگراں ون 31 میگاواٹ اور جھنگ پاور اسٹیشن کی صلاحیت 14 میگاواٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا کلیدی شعبہ توانائی ہے۔ اس وقت پاکستان بجلی پیدا کرنے کے لیے زیادہ تر درآمدی ایندھن پر انحصار کرتا ہے۔ ویلتھ پاک کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامیمنڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پاکستان کا تیل کا درآمدی بل 99 فیصد سے زائد بڑھ گیا اور گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ میں 19.69 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران خام تیل کی درآمد کی قدر میں 74.70 فیصد اور مقدار میں دو فیصد اضافہ ہوا جبکہ مائع قدرتی گیس کی درآمد میں 86.29 فیصد اضافہ ہوا۔ تیل کے درآمدی بل میں مسلسل اضافہ تجارتی خسارے کو متحرک کر رہا ہے اور قومی معیشت پر دباو ڈالنے کا خطرہ ہے۔ توانائی کی پیداوار کے لیے مقامی وسائل کا استعمال پاکستان کو تیل کے درآمدی بل کو کم کرکے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی