اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی ممبر الیکشن کمیشن سندھ نثار درانی کی تعیناتی کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دلائل سننے کے بعد احکامات جاری کئے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن آئینی فورم ہے،ممبر ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ممبر الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت آئین کی بالادستی کا احترام کرے گی، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ وکیل تحریک انصاف نے مقف پیش کیا کہ ممبر سندھ کا کیس ذرا مختلف ہے، عدالت آئینی اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کا آئینی اختیار بھی آئین کے مطابق ہی ہے، عدالت آئینی اختیار وہاں استعمال کرتی ہے جہاں متعلقہ فورم موجود نہ ہو۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئین ممبر الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا فورم فراہم کرتا ہے، ممبر کی تعیناتی کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت ہوتی ہے، طے نہ ہو پائے تو پھر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ نثار درانی کی بطور ممبر الیکشن کمیشن تعیناتی ہی غیرقانونی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے غلط تعیناتی کی۔ فواد چوہدری نے جواب دیا کہ غلطی بھی ہوسکتی ہے،ہوسکتا ہے کوئی چیز معلوم نہ ہو اور بعد میں سامنے آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی غلطی ہوگئی تو پھر اسے درست کرنے کا فورم موجود ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ نثار درانی کب ممبر تعینات ہوئے۔ وکیل نے جواب دیا کہ 24 جنوری 2020 کو ممبر الیکشن کمیشن تعینات کیا گیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت تعیناتی میں فواد چوہدری کی پارٹی بھی شامل تھی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی