انسداد دہشت گردی عدالت نے دہشت گردی مقدمہ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کیعبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کر تے ہوئے کہا ہے کہ پولیس چاہے تو عمران خان سے عدالت میں تفتیش کرسکتی ہے، پولیس بے شک جوڈیشل کمپلیکس کے بار روم میں تفتیش کرلے۔ پیر کو انسداد دہشت گردی عدالت میں دہشت گردی کے مقدمے میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جج راجہ جواد عباس نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ عمران خان تفتیش میں شامل ہوئے۔ جس پر تفتیشی افسر عدالت کو بتایا کہ عمران خان ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، انہوں نے صرف ایک تحریری بیان بھیجا ہے۔ عدالت نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیس میں ان کا بیان ہی چاہئے، اور کیا برآمدگی کرنی ہے، کیا عمران خان کا وہ بیان آپ نے رپورٹ کا حصہ بنایا۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ عمران خان کا وہ بیان رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بیان ریکارڈ کا حصہ نہ بنانا آپ کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے، کیا وہ بیان آپ نے تحفے کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں مقف پیش کیا کہ اگر پولیس نے عمران خان سے تفتیش کرنی ہے تو وہ 11 بجے عدالت آرہے ہیں، پولیس تفتیش کرلے، پولیس بے شک جوڈیشل کمپلیکس کے بار روم میں تفتیش کرلے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس چاہے تو عمران خان سے یہاں تفتیش کرسکتی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ عمران خان 11 بجے تک عدالت پیش ہوں، اور فریقین آج ہی دلائل دیں، عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان عدالت پہنچ گئے، اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔ وقفے کے بعد دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے عمران خان کے وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ پولیس روز یہی لکھ کر دیتی ہے کہ عمران خان کی پچھے کالعدم تنظیمیں پڑی ہیں، عمران خان تھانے جائیں کوئی بھی مار دے تو پھر کون جواب دہ ہوگا۔ وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ ساتھ اپنے دو لوگوں کو بھی ٹھوک دیں گے اور کہہ دیں گے حملہ ہو گیا، عدالت لکھ کر ضمانت دے دے کہ کچھ نہیں ہوگا تو ہم تھانے چلے جائیں گے۔ بابر اعوان نے کہا کہ پولیس کو صبح بھی آفر کی تھی کہ ساتھ والے کمرے میں تفتیش کرلے، کیا جوڈیشل کمپلیکس میں تفتیش کرتے ہوئے ان کی توہین ہوتی ہے، عدالت تفتیش میں حقائق چھپانے پر انہیں سزا دے سکتی ہے، عدالت انھیں یہ سزا سمری کارروئی کرکے بھی دے سکتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بالکل قانون میں یہ سزا دینے کے گنجائش موجود ہے۔ عمران خان کے وکیل نے مزید کہا کہ ملزم پولیس کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلے تو کوئی قانونی حیثیت نہیں، پھر یہ شامل تفتیش ہونے کیلئے ذاتی پیشی کی شرط کیوں رکھ رہے ہیں۔ ب
ابر اعوان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ دیکھ لیں ماڈل ٹان کے سارے ملزمان اسلامآباد پولیس میں آگئے، کبھی کہا جاتا ہے کہ چیف کمشنر آفس کے آڈیٹوریم میں آجائیں۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ کیا یہ پولیس مقابلے کی تیاری ہو رہی ہے، وہاں کہہ دیں گے کہ کسی کالعدم تنظیم نے حملہ کر دیا۔ بابر اعوان نے کہا کہ پولیس یہ بتا دے عمران خان سے تفتیش کرنی ہے یا ہراساں کرنا ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ سے متعلق معاملہ اب ہائیکورٹ میں ہے، آدھی ایف آئی آر تو اسی نکتے پر ختم ہو جاتی ہے۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے باقی بیان سے یہ دہشت گردی نکال کر دکھا دیں۔ عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی سے استفسار کیا کہ رضوان عباسی صاحب حکومت ہمیشہ آپ کو 2 ہفتے بعد کیوں لاتی ہے، کیا حکومت پہلے سوچ رہی ہوتی ہے کہ آپ کو لایا جائے یا نہ لایا جائے۔ رضوان عباسی نے عدالت کو جواب دیا کہ مجھے جیسے ہی کہا گیا عدالت میں حاضر ہو گیا ہوں۔ اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ بابراعوان نے کہا چیف کمشنر آفس میں جانے پر پولیس مقابلہ ہو جائے گا، کیا پہلے کبھی چیف کمشنر آفس پولیس مقابلے کیلئے استعمال ہوا ہے۔ بابر اعوان نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اس سے پہلے کبھی کسی لیڈر کی تقریر یوٹیوب پر بھی بند ہوئی تھی، یہ نہ بات کی جائے کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، یہاں اس عدالت آنے کیلئے بھی ریاست نے ہی انھیں سیکیورٹی دی۔ بابر اعوان نے کہا کہ یہاں یہ اہلکار عمران خان کو گھیرنے آئے ہیں سکیورٹی دینے نہیں۔ عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی