چائنا فوٹو وولٹک انڈسٹری ایسوسی ایشن (سی پی آئی اے ) نے کہا ہے کہ شمسی توانائی پاکستان میں توانائی کا اہم ماخذ ہے پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ملک کے لیے شمسی توانائی ایک بہترین انتخاب ہے، پاکستان ہر سطح پر فوٹو وولٹک کو اپنا رہا ہے، پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں تقریباً 1.2 بلین امریکی ڈالر کے فوٹو وولٹک ماڈیولز درآمد کیے، ''2022 میں، چین کی فوٹو وولٹک ماڈیول کی پاکستان کو برآمدات تقریباً 870 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں، رواں سال فوٹو وولٹک مصنوعات کی درآمدی مانگ 1.8 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہوگی۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابقسندھ میں ہائی وے سے بالکل دور ایک چھوٹی سی بستی اسحاق جوکیو صوبے کے دیگر حصوں کے برعکس بجلی کی فراہمی سے محروم تھا اس بستی میں لوگ اندھیرے اور گرمی سے دوچار ہوتے تھے جب گرمیوں میں بجلی کی زیادہ کھپت کے دوران گھنٹوں بجلی بند رہتی ہے تو یہاںکے رہائشی بجلی آنے کا انتظار نہیں کرتے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق انڈس ارتھ ٹرسٹ ( آئی ای ٹی ) یہاں سبز توانائی کو فروغ دے کر روزگار بہتر بنانے کے پروگراموں میں پیش پیش ہے۔ دیہاتوں کا انتخاب ضروریات کے جائزے کے سروے کے مطابق کیا گیا جبکہ دیہاتیوں نے وہ زمین فراہم کی جہاں 19 کلو واٹ کا منی گرڈ نصب کیا گیا ۔ اس بستی میں بحیرہ عرب سے آنے والی سمندری ہواؤں نے خوش حالی کو جنم دیا۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق فی الحال، زیادہ دیہاتوں کو اتنی اچھی قسمت نہیں ملی ہے۔
یہ دکھایا گیا ہے کہ پاکستان کے توانائی کے مسائل نئے نہیں ہیں بلکہ روس اور یوکرائن تنازع اور عالمی رسد کے بحران کی وجہ سے کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کا ایندھن کا درآمدی بل مالی سال 2021 -22 میں بڑھ کر 23 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 105 فیصد زیادہ ہے، جو کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے فرق کے لیے اس سے زیادہ برا کچھ نہیں۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق چائنا فوٹو وولٹک انڈسٹری ایسوسی ایشن (سی پی آئی اے ) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور پریس ترجمان لیو یانگ نے سی ای این کہا کہ شمسی توانائی کی پیداوار نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف عالمی جنگ میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالا ہے، جو کہ پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ملک کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گھر فراہم کی جانے والی کل بجلی کا 50 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ یہ طلب بڑی حد تک کولنگ اور لائٹنگ پر خرچ ہوتی ہے، جس کا تخمینہ 2020 میں 121 فیصد اضافہ کیساتھ 106 ٹیرا واٹ گھنٹے (TWh) سے بڑھ کر 2030 میں 234 ٹیرا واٹ گھنٹے ہو جائے گا ۔ کافی حد تک، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت م اوسط اضافے سے یہ بگڑ جائے گا۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق متعدد عوامل پاکستان کے توانائی کے ڈھانچے میں تبدیلی کی ایک اشد ضرورت کی عکاسی کرتے ہیں۔
گزشتہ اگست میں حکومت نے شمسی توانائی کے اقدامات کے تحت 9,000 میگاواٹ شمسی توانائی کو قومی گرڈ میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان بھر میں تمام سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر سولر پینلز ضرور لگائے جائیں جس سے ماہانہ 300 سے 500 میگاواٹ بجلی کی بچت ہو سکتی ہے۔ عام طور پر، شمسی توانائی آف گرڈ علاقوں میں بجلی کا واحد ذریعہ ہے، اور یہ پاکستان بھر میں گھروں اور گلیوں کو روشنی دینے میں مدد کر رہی ہے۔ واپسی کا ایک نقطہ آنے والا ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق لیو یانگ نے بتایا کہ پاکستان ہر سطح پر فوٹو وولٹک کو اپنا رہا ہے۔ ملک نے گزشتہ مالی سال میں تقریباً 1.2 بلین امریکی ڈالر کے فوٹو وولٹک ماڈیولز درآمد کیے۔ ''2022 میں، چین کی فوٹو وولٹک ماڈیول کی پاکستان کو برآمدات تقریباً 870 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس کی کل نصب صلاحیت 3.2 جی ڈبلیو ہے، جو کہ بالترتیب 54 فیصد اور 37 فیصد کے سالانہ اضافہ ہے ۔ پاکستان سولر ایسوسی ایشن ( پی ایس اے ) نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال فوٹو وولٹک مصنوعات کی درآمدی مانگ 1.8 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہوگی۔ کے ٹریڈ سیکیورٹیز کے تجزیہ کار نے سی ای این کو بتایاکمپنیوں اور تنظیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس لہر کو پکڑ رہی ہے، جو پاکستان کے شمسی توانائی کی کھپت میں چھلانگ لگا کر اضافہ دکھا رہی ہے۔ پاکستان کی سولر انرجی مارکیٹ میں 2022 سے 2027 کے دوران 2.5 فیصد کا سے اے جی آر ریکارڈ کرنے کی توقع ہے، نیٹ میٹرنگ پر مبنی سولر انسٹالیشنز اور پاور جنریشن میں بالترتیب 102 فیصد اور 108 فیصد اضافہ ہوا ۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق یہ پاکستان کے لیے اچھا ہے۔ تاہم، اس طرح کے آسمان کو چھونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مارکیٹ سیر ہو گئی ہے اور مانگ پوری ہو رہی ہے۔ نیپرا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی فی کس سالانہ بجلی کی کھپت 644 کلو واٹ گھنٹے (kWh) دنیا میں سب سے کم ہے، جو کہ دنیا کی اوسط کا صرف 18 فیصد ہے، ترقی یافتہ ممالک کی اوسط کا 7 فیصد ہے، اور ابھی تک، دسمبر 2022، پاکستان کی کل گھریلو نصب شدہ بجلی کی صلاحیت 43,775 میگاواٹ ہے، جس میں سے فوٹو وولٹک کی تنصیب کی صلاحیت 630 میگاواٹ ہے، جو کہ صرف 1.4 فیصد ہے، جس سے فائدہ اٹھانے کے وسیع مواقع کی نمائندگی کرتا ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق دنیا نے وسیع امکانات کے ساتھ قابل توسیع مارکیٹ کو دیکھا ہے۔ 2020 میں عالمی بینک کی ایک تحقیق میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ فوری طور پر شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو 2030 تک کم از کم 30 فیصد تک بڑھا دے، جو تقریباً 24,000 میگاواٹ کے برابر ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق حال ہی میں، پی ایس اے نے ایک باضابطہ خط بھیجا، جس میں وفاقی حکومت کو کہا گیا کہ وہ ایس بی پی اور دیگر کمرشل بینکوں سے ایک ایسے وقت میں 800 ملین ڈالر کی سالانہ حد کے ذریعے شمسی توانائی کی درآمدات میں مدد کے لیے کہے جب پاکستان کو قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سست ترقی کا سامنا ہے۔ پی وی مصنوعات کے پاکستان کے اہم درآمدی ذریعہ کے طور پر، چینی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سی پیک فریم ورک کے تحت زیادہ سے زیادہ کردار ادا کریں۔
چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کے پی وی پلانٹس میں 144 ملین امریکی ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری میں سے 125 ملین امریکی ڈالر چین سے ہیں جو کل کا تقریباً 87 فیصد بنتا ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق کے ٹریڈ سیکیورٹیز سولر نے پی وی انڈسٹری کی رپورٹ میں اشارہ کیا کہ پاکستان اور چین قابل تجدید توانائی (سولر پی وی) پر تعاون کے لیے ایک بہترین میچ ہیں کیونکہ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین عالمی سطح پر جانا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کو بجلی کی پیداوار کے لیے تھرمل سے ہٹ کر قابل تجدید کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔ چائنا اکنامک نیٹ کے مطابق بہاولپور کے قائداعظم سولر پارک میں واقع زونرجی 9100 میگاواٹ کے شمسی توانائی کے منصوبے کے علاوہ چین کی کوششیں مائیکرو پاور پلانٹس کی صورت میں دور دراز علاقوں کے لاکھوں گھرانوں تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ پختونخوا انرجی ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (PEDO) کچھ اضلاع کو بجلی فراہم کرنے کے لیے سولر پی وی منی گرڈ اسٹیشن تعمیر کر رہا ہے۔
ابتدائی منصوبوں میں سے ایک جنڈولہ میں ہے، جس کے سیٹ اپ کے اجزاء بنیادی طور پر چین سے درآمد کیے جا رہے ہیں۔ یہاں کا منی گرڈ جنڈولہ بازار کی سینکڑوں دکانوں کو بجلی فراہم کرے گا جہاں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ مقامی تاجروں کے لیے ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ بلاتعطل، سستی، سبز اور صاف توانائی اب یہاں کی کاروباری برادری کی پہنچ سے باہر نہیں رہے گی۔لیو نے سی ای این کو بتایا کہ '2022 میں، چین کی پی وی مصنوعات کی برآمد پہلی بار 50 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان، جنوبی ایشیا میں ایک اہم ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے طور پر، اس سال پی وی کی ترقی میں ایک نئی سطح تک پہنچنے کی امید ہے۔ ''ذرائعـنیٹ ورکـلوڈـسٹوریج'' کا مربوط ماڈل چین کے چنگھائی، سنکیانگ اور پاکستان سے ملتی جلتی آب و ہوا اور خطوں کے ساتھ دوسرے علاقوں میں شروع کیا گیا ہے۔ پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ متعلقہ تجربے کا اشتراک کرنا مکمل طور پر ممکن ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی