پاکستان سالانہ قریباً4 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کر رہا ہے جو ملکی معیشت پر ایک بوجھ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تیلدار اجناس کے زیرِ کاشت رقبہ میں اضافہ کر کے ملکی درآمدی بل میں کمی لائی جائے ۔ان خیالات کا اظہار سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے آج یلدار اجناس کی کاشت کے فروغ کے لئے منعقدہ مشاورتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ تیلدار اجناس کی مانگ پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے۔صوبہ پنجاب میں تیلدار اجناس کے زیرِ کاشت رقبہ میں اضافہ کرکے نہ صرف ہم اپنی ضرورت کا تیل خود پیدا کرسکتے ہیں بلکہ اس کی برآمد سے کثیر زرِ مبادلہ کا حصول بھی ممکن کیا جا سکتا ہے۔اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب ڈاکٹر انجم علی،ڈائریکٹرجنرل کراپ رپورٹنگ پنجاب ڈاکٹر عبدالقیوم سمیت دیگر افسران ،ترقی پسند کاشتکاروں اورتیلدار اجناس کی انڈسٹری سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران سیکرٹری زراعت پنجاب کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان اپنی ضرورت کا قریباً88 فیصد خوردنی تیل درآمد کرتا ہے ۔تیلدار اجناس کی کاشت کے فروغ کے لئے 5 ارب11کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبہ پر عملدرآمد جاری ہے جس کے تحت کاشتکاروں کو سورج مکھی اور کینولہ کی کاشت پر5 ہزار روپے فی ایکڑ جبکہ تل کی کاشت پر2 ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔اس منصوبے کے تحت تیلدار اجناس کی مشینری بھی50 فیصد کاشتکاروں کو فراہم کی جا رہی ہے اور کاشتکاروں کے مابین صحتمندانہ مسابقت کے لئے پیداواری مقابلہ جات کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے۔ان تمام ترغیبات کے نتیجے میں سورج مکھی اور کینولہ کے زیر کاشت رقبہ میں 35فیصد تک اضافہ ہواہے جبکہ تل کے زیرِ کاشت رقبہ میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس موقع پر سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے کہا کہ تیلدار اجناس رقبہ میں مزید اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی غذائی ضروریات کا خوردنی تیل خود پیدا کر سکیں۔انھوں نے کہا کہ تیلدار اجناس کی کاشت میں اضافہ کے لئے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جائے جس سے دوسری فصلات کے زیرِ کاشت رقبہ میں کمی واقع نہ ہو۔ اس موقع پرسیکرٹری زراعت پنجاب نے ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیع کو تیلدار اجناس کی کاشت میں اضافہ کے لئے ایک جامع منصوبہ بناکر پیش کرنے کی ہدایت کی ۔اجلاس میںترقی پسند کاشتکاروں اور انڈسٹری سے وابستہ لوگوں نے سیکرٹری زراعت کو اپنے مسائل کے متعلق بتایا جسے انھوں نے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی