i معیشت

پاکستان میں پلاسٹک کا کوڑا 2040ء تک ?12 ملین ٹن سالانہتازترین

April 25, 2023

اس 20 ملین ٹن سالانہ کوڑے میں سے تقریباً 60 فیصد کوڑے کے طور پر پھینک دیا جانے والا پلاسٹک ہوتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پلاسٹک کے اس کوڑے کا سالانہ حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات ملک میں تحفظ ماحول کی کوششوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کی وفاقی وزیر شیری رحمان کے مطابق ملک میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کے کوڑے کا حجم کے ٹو جتنے اونچے دو پہاڑوں کے برابر بنتا ہے۔شیری رحمان نے ابھی حال ہی میں یہ تنبیہ بھی کی کہ پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگا دینے کے بجائے اس کا متبادل تلاش کرنا بے حد ضروری ہوچکا ہے کیونکہ اگر ابھی سے ٹھوس اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو سن 2040ء تک ملک میں پلاسٹک کیکوڑے کی سالانہ پیداوار 12 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔سن 2022ء میں پاکستان میں پلاسٹک کا ایسا تقریباً تین ملین ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوا تھاپاکستانی عوام اتنے زیادہ پلاسٹک ویسٹ کی وجہ کیوں بنتے ہیں اور اس عمل کے اصل محرکات کیا ہیں 'پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی' کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فرزانہ الطاف سے تو ان کا کہنا تھا، ''سب سے پہلی بات عام لوگوں کا رویہ ہے، جو پلاسٹک کی ایسی مصنوعات زیادہ استعمال کرتے ہیں، جن کا بعد میں نہ تو کوئی دوبارہ استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی جن کی پیداوار کا طویل المدتی بنیادوں پر کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر فرزانہ الطاف شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں مزید کہا، ''ماضی میں لوگ خریداری کے لیے جاتے تھے تو ان کے ہاتھ میں کپڑے کے تھیلے ہوتے تھے۔

اب یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے ہاتھ میں موبائل فون تو ہوتا ہے لیکن شاپنگ کے لیے کپڑے کا تھیلا ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اسی لیے پلاسٹک بیگز کا استعمال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ہم دراصل اپنی سہولت دیکھتے ہیں۔ اور اسی سہولت پسندی کے باعث ہم پلاسٹک کے ذریعے زمین اور اسکے ماحول کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔''ڈاکٹر فرزانہ کے مطابق، ''حکومت نے سن 2019ء میں پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کی تھی، جو مؤثر بھی ثابت ہوئی۔ اب بڑے بڑے شاپنگ مالز میں مشہور برانڈ سٹورز نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال تقریباً ختم کر دیا ہے۔اب باقی سب جگہوں پر بھی ان بیگز کا استعمال ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عیدالفطر کی چھیٹیوں کے فوراً بعد اسلام آباد میں اس حوالے سے ہر سطح پر ایک گرینڈ ایکشن کیا جانے والا ہے۔''پاکستان میں اگر حکومت اتنے اقدامات کر رہی ہے، تو پھر پلاسٹک کے کوڑے میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہ نے بتایا، ''کسی بھی قانون کے نفاذ کے بعد اس کے احترام کا انحصار عوامی رویوں پر ہوتا ہے۔جب تک موجودہ عوامی رویے تبدیل نہیں ہوں گے

اس قسم کے ماحول دوست قوانین پرعمل کروانا بہت مشکل ہی رہے گا، بالخصوص امراء کو ان کے رویوں میں تبدیلی کا قائل کرنا ہو گا، سب سے مشکل کام ہے۔''مسئلہ صرف پلاسٹک کے کوڑے کا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پرٹھوس کوڑے کرکٹ کا ہے، جس کو مناسب طور پر ٹھکانے لگانے یا ری سائیکل کرنے کا پاکستان میں کوئی انتظام ہی نہیں۔اس میں سے 60 فیصد تک پلاسٹک ویسٹ ہوتا ہے۔ ایسے پلاسٹک میں سرفہرست شاپنگ بیگز یا عرف عام میں شاپر ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔''ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ پلاسٹک ویسٹ میں واضح کمی یا اس کے خاتمے کے لیے حکومت، کاروباری شعبے اور عام شہریوں سمیت ہر کسی کو مل کر کاوشیں کرنا ہوں گی۔ نصیر میمن نے کہا، ''پلاسٹک بیگز جیسی ماحول دشمن مصنوعات کے بارے میں شعور میں اضافہ کرتے ہوئے پیپر بیگز، کپڑے کے تھیلوں اور شیشے کی بار بار استعمال ہونے والی بوتلوں جیسے دیرپا متبادل ذرائع کی ترویج کی جانا چاہیے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی