نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں اہم ترین اقتصادی پالیسیاں زمینی حقائق کے بجائے توقعات اورخواہشات کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں اہم فیصلے ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اس لئے ہم نہ ختم ہونے والے تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی ایک وجہ پاکستان کا زنگ آلود نظام انصاف ہے جو کہ 140 میں سے 129 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں صرف وہ پالیسیاں کامیاب ہوتی ہیں جواشرافیہ کی دولت میں اضافے کا سبب بنیں۔ ناقص طرزحکمرانی اشرافیہ کی خود غرضی اوراہم فیصلوں و ضروری اصلاحات کو ٹالنے کی وجہ سے معیشت اپنے پوٹینشل کیمطابق ترقی نہیں کرسکی اور پاکستان میں بیرونی قرضے 126 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ غربت میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ موجودہ معاشی بحران نے ملک کے متوسط طبقے کی تعداد کو پانچ کروڑ سے گھٹا کرچارکروڑ کردیا ہیاوراس میں مزید کمی آرہی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صحت اورتعلیم کے شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ جب عوام کی صحت ہی خراب ہواورتعلیمی اداروں کی اکثریت اصطبل بنی ہوئی ہوتو ساری دنیا کے معاشی ماہرین مل کر بھی ملک کو ترقی نہیں دے سکتے۔
ارباب اختیار نے اپنی نا اہلی اور کرپشن چھپانے کے لئے عوام کو ہمیشہ یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان کے خلاف ساری دنیا مسلسل سازشوں میں مصروف ہے جسکی وجہ سے یہ ملک ترقی نہیں کر پا رہا ہے۔ اس سوچ کی وجہ سے عوام کی توجہ ملک کے اندرموجود مسائل سے ہٹ جاتی ہے جو کہ اشرافیہ کا مقصد ہے۔ پاکستان میں انسانی وسائل کی اہمیت کو کبھی نہیں سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اسے ترقی دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ 1990 میں پاکستان اوربھارت کی فی کس آمدنی 370 ڈالر تھی۔ اب پاکستان میں فی کس آمدنی 1505 ڈالر جبکہ بھارت میں 2277 ڈالر ہو چکی ہے اورصورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ پاکستان میں آبادی کی بڑی تعداد ٹیکس نہیں دیتی عالمی معیار کے حساب سے ہم سالانہ چار ہزار ارب روپے ٹیکس کم دیتے ہیں۔ اور بہت سے سیاستدان بھی ٹیکس ادا کرنا اپنی توہین جبکہ ٹیکس چرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ کاروباری برادری کو بین الاقوامی منڈی میں حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی بلا تعطل یقینی بنائی جائے اور ان اشیاء کے نرخ بھارت، چین، ویتنام اور بنگلہ دیش کی صنعتوں کے مطابق رکھے جائیں تو برآمدات میں معقول اضافہ ممکن ہے مگر کچھ لوگ پاکستانی صنعتکاروں کو مطعون کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور پاکستانی برآمد کنندگان پر مختلف حیلے بہانوں سے سبسڈی کے حصول کا الزام لگاتے ہیں ان لوگوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی