پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ مغربی ممالک میں پیکج غریبوں کو دئیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں پیکج ارب پتیوں کو دئیے جاتے ہیںجس کا مقصد انکے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے تاہم عوام کو اسے ترقی کے لئے ضروری بتایا جاتا ہے۔ مہذب ممالک میں ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کو کوئی تصور نہیں مگر پاکستان میں ہر حکومت امیروں کو کالا دھن سفید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے ایک بیان میں کہا کہ عوام کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ صنعتی زرعی سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو پیکج دینا ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سابق حکومت نے عوام کو سستے مکانات کا سبز باغ دکھا کر کنسٹرکشن پیکج کا اعلان کیا جس سے غریبوں کے لئے ایک گھر بھی نہ بن سکا مگربلڈرز مافیا نے اربوں روپے کما لئے۔ اس پیکج سے پلاٹوں گھروں اور تعمیراتی سامان کی قیمت بڑھنے اور کرایوں میں اضافہ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں صنعت کاروں اور برامدکنندگان کوبھی پیکجوں اور ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کی لت لگی ہوئی ہے اور وہ اس وقت تک کام ہی نہیں کرتے جب تک انھیں اربوں روپے کا فائدہ نہ دیا جائے۔ امپورٹرز کی اکثریت انڈر انوائسنگ کر رہی ہے جس سے حکومت کو کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ صرف ایک پڑوسی ملک سے تجارت میں کم از کم چار ارب ڈالر کی انڈر انوئسنگ کی جا رہی ہے اور پاکستان منگوائے گئے سامان کی ادائیگی ہنڈی کے زریعے کی جاتی ہے جو ارباب اختیار کے علم میں ہے مگر اس پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک جل بھی رہا ہو تو سیاسی جماعتوں کے لئے سیاسی مفادات ملکی مفادات سے اہم ہوتے ہیںاور ذمہ داری انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی