ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں زبردست کمی ملک سے سب سے بڑے برامدی شعبہ کے لئے پیغام اجل ہے۔سب سے زیادہ برامدات اور شہروں میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والا ٹیکسٹائل کا شعبہ پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط تلے دب کر دم توڑ رہا تھا اور اب کپاس کی نایابی اسکے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ حکومت فوری طور پر کپاس درامد کرنے اور اسکی پیداوار میں اضافہ کے لئے موثر حکمت عملی بنائے۔عاطف اکرام شیخ جوپی وی ایم اے کے سابق چئیرمین بھی ہیں نے کہا کہ سیلاب کے بعد کپاس کی پیداور صرف نو ملین گانٹھ رہ جانے کا اندازہ تھا مگرحالیہ اندازوں کے مطابق یہ چالیس لاکھ اٹہتر ہزار گاٹھ تک کم ہو جائے گی جس کی وجہ کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں زبردست کمی ہے۔اگر کاشتکاروں کو مناسب منافع نہ دیا گیا تو اگلے سال اس میں مزید کمی آ جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ کپاس کی امدادی قیمت میں اضافہ سے ہی اس کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ 2004-5 میں کپاس کی پیداوار 14.1 ملین گانٹھ تھی جس کا حصول ناممکن نہیں ہے مگر اس کے کئے کاشتکاروں کو ترغیبات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنانا ہو گا ورنہ وہ چاول گنا اور مکئی اگاتے رہیں گے جس سے کپاس، خوردنی تیل اور جانوروں کی خوراک کا امپورٹ بل بڑھتا چلا جائے گا۔اس وقت کپاس کی پیداوار پر سات ہزار روپے فی من خرچہ آ رہا ہے جبکہ مداخل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اس لئے حکومت کو کاشتکاروں کو کم از کم دو ہزار روپے من منافع دینا چائیے ورنہ کپاس میں انکی دلچسپی ختم ہو جائے گی ۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی