پاکستان کماد کی کاشت کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود فی ایکڑ پیداوار اور شوگر ریکوری میں بہت پیچھے ہے جس کیلئے خصوصی اقدامات، جدید ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ زرعی مداخل سستے اور تمام وسائل سے استفادہ کی ضرورت ہے جس کے تحت کماد کی جدید اقسام کو فروغ دیکر پیداوار میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت توسیع فیصل آبادچوہدری خالد محمودنے بتایاکہ ایسے پروگرام صرف اسی صورت ہی سودمند ہیں جب ہم ان سے حاصل ہونیوالی قیمتی معلومات، تجربات اور نتائج کسانوں تک پہنچائیں کیونکہ اگر فارمرز کی پیداوار بڑھے گی تو اس سے سب کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ فصلوں کی روایتی پیداور پر اکتفا کر لینا درست نہ ہے لہٰذا ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کوئی بھی ہوفائدہ مند ہی ہے تاہم اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ٹیکنالوجی استعمال کر لی جائے جس کا مقصد فی ایکڑ پیداوار کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم ایک ایکڑ میں کماد کے70ہزار پودے لگائیں تو پیداوار 8سو من تک حاصل کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو سہولیات و رہنمائی کی فراہمی،فرٹیلائزر، مشینری، ڈیزل، بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پیداوار میں اضافہ کماد کی جدید ورائٹیز کو فروغ دیکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ شوگر ملوں کے فاضل میٹریل کو فصلوں کی زرخیزی کیلئے استعمال میں لایا جانا چاہیے کیونکہ کمپوسٹ مڈ سے نامیاتی مادے کی کمی بھی دور کی جا سکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی