پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مابین نہ ختم ہونے والے اختلافات کی وجہ سے ملک میں گندم اور آٹے کے خوفناک بحران کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی بار گندم کے بارے میں اہم فیصلوں سے قبل مزاکرات کے بجائے فیصلے کر کے بات چیت کی جا رہی ہے جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں گندم کی قیمت یکساں رکھنے کا سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ماضی کا طریقہ چھوڑ کر مختلف قیمتوں پر گندم کی درامد کی جا رہی ہے جبکہ حکومت کے پاس سبسڈی کے زریعے قیمتوں کی یکساں رکھنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ ستمبر کے مہینے میں حکومت سندھ نے مرکز یا دیگر صوبوں سے صلاح و مشورہ کئے بغیریکطرفہ طور پر گندم کی قیمت خرید 2200 روپے سے بڑھا کر4000 روپے کر دی جس کے بعدپنجاب نے قیمت خرید بائیس سو روپے من سے بڑھا کر تین ہزار روپے کر دی ۔
ابھی مرکزی حکومت اس سلسلہ میں غور کر ہی رہی تھی کہ پنجاب حکومت نے قیمت خرید میں مزید اضافہ کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس سے ملک بھر میں گندم کی منڈی میں افرا تفری مچ گئی۔ اس وقت گندم کی تین اہم سٹیک ہولڈر جس میں پنجاب سندھ اور مرکزی حکومت شامل ہیں گندم کی قیمت کے بارے میں متفق نہیں ہو رہے ہیں اور اپنے سیاسی مفادات کو اولیت دینے میں مصروف ہیں ۔2021 اور2022 میںگندم درامد کرنے پر بھی دو ارب ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں مگر صورتحال بہتر نہیں ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے نجی درامدکنندگان، نجی شعبہ ، منافع خور اور زخیرہ اندوز بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ عوام چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی