کپاس دنیا کی ایک اہم ترین ریشہ دار فصل ہے۔ اس سے لباس اور کپڑے کی دوسری مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بنولے کا تیل بناسپتی گھی کی تیاری کے لئے بطور خام مال استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پنجاب کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ مجموعی پیداوار کاقریباً 70 فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔ کپاس کی کاشت کے مرکزی علاقوں میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، ساہیوال اور رحیم یار خان کے اضلاع شامل ہیں جبکہ ثانوی علاقوں میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، بھکر، میانوالی، قصور، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع شامل ہیں۔ کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں میں رس چوسنے والے کیڑے کُتر کر کھانے والے کیڑوں کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ رس چوسنے والے کیڑے کپاس کی فصل سے ابتدا ہی سے پتوں کا رس چوس کر پودوں کو کمزور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ رس چوسنے والے کیڑوں میں معاشی نقصان کے لحاظ سے سفید مکھی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ سفید مکھی کے کپاس کے علاوہ تقریباً 500 سے زائد متبادل خوراکی پودے ہیں جن پر یہ کپاس کی فصل نہ ہونے کی صورت میں بھی سال بھر اپنا دوران زندگی جاری رکھتی ہے۔ کپاس کی فصل کو سفید مکھی کے بالغ اور بچے دونوں ہی رس چوس کر نقصان پہنچاتے ہیں۔ رس چوسنے کے عمل کے دوران، بالغ اور بچے اپنے جسم سے لیس دار ماردہ خارج کرتے ہیں جس پر بعد میں سیاہ رنگ کی اُلی لگ جاتی ہے جس سے ضیائی تالیف کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
پودے کی بڑھوتری رک جاتی ہے اور پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔ اگر سفید مکھی کی مناسب اور بروقت روک تھام نہ کی جائے تو کپاس کی فصل میں اس کی کالونی بن جاتی ہے اور کالونی بننے کے بعد اس کا تدارک مشکل ہوجاتا ہے۔ سفید مکھی کے پھیلائو میں جڑی بوٹیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ جڑی بوٹیاں نہ صرف سفید مکھی کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کرتی ہیں بلکہ یہ سفید مکھی کی خوراک کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کا بروقت تدارک نہ ہونا بھی سفید مکھی کے شدید حملہ کی بنیادی وجہ ہے۔ سفید مکھی کے پھیلائو کی دوسری اہم وجہ غیر سفارش کردہ، غیر معیاری اور بار بار ایک ہی گروپ سے تعلق رکھنے والی زرعی زہروں کا بے دریغ استعمال ہے۔ مسلسل ایک ہی قسم کی زہریں سپرے کرنے سے سفید مکھی میں ان کے خلاف قوت مدافعت آجانے کی وجہ سے بھی سفید مکھی کا موثر انسداد مشکل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں سفید مکھی کی وجہ سے نہ صرف کپاس کی فصل کی بڑھوتری متاثر ہوئی بلکہ روئی کی پیداوار اور کوالٹی میں بھی واضح کمی آئی۔ گزشتہ سال حکومت پنجاب نے کپاس کی سفید مکھی کے موثر تدارک کیلئے پنجاب بھر میں آف سیزن مینجمنٹ مہم چلائی جس میں سفید مکھی کے متبادل خوراکی پودوں اور جڑی بوٹیوں کا آف سیزن میں تدارک سرفہرست تھا۔ اب پنجاب حکومت کی سفید مکھی کے مربوط انسداد کیلئے اِن سیزن مینجمنٹ مہم جاری ہے جس میں کپاس کی نگہداشت کیلئے پیسٹ سکائوٹنگ اور سفید مکھی کے انسداد کیلئے سفارش کردہ، موثر اور معیاری زہروں کے بروقت استعمال کی حکمت عملی شامل ہیں۔ سفید مکھی کپاس کے پتوں سے رس چوستی ہے اور اپنے جسم سے ایک میٹھا لیسدار مادہ خارج کرتی ہے جو پتوں کی اوپر والی سطح پر گرتا رہتا ہے جس سے پتوں پر سیاہ رنگ کی اُلّی لگ جاتی ہے اور پتے کالے ہوجاتے ہیں جس سے پتوں میں ضیائی تالیف کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
سفید مکھی کے حملہ کی وجہ سے فصل کمزور اور پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ اگر سفید مکھی کا حملہ زیادہ شدید ہو تو پھٹی اُلّی کی وجہ سے سیاہ بھی ہوجاتی ہے اور فصل سے حاصل ہونے والی روئی کی کوالٹی بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ سفید مکھی کپاس کی فصل میں پتہ مروڑ وائرس بھی پھیلاتی ہے جو کہ کپاس کی پیداوار کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ سال بھر سفید مکھی کی افزائش نسل جاری رہتی ہے اور تمام حالتوں میں موجود رہتی ہے لیکن سرد موسم میں بالغ مکھیوں کی تعداددوسری حالتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ مادہ مکھی اوسطاً 119 ڈنڈی نما انڈے پتوں کی نچلی سطح پر دیتی ہے جن کا رنگ شروع میں ہلکا پیلا اور بچہ نکلتے وقت بھورا ہوجاتا ہے۔ اپریل سے ستمبر تک انڈوں سے 3 سے 5 دن میں بچے نکلتے ہیں۔ اکتوبر سے نومبر تک یہ عرصہ 5 سے 17 دن جبکہ دسمبر سے جنوری میں یہ دورانیہ 33 دن تک محیط ہوتا ہے۔ انڈوں سے نکلنے والے بچے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں جو فوراًہی پتوں کے ساتھ چپک کر اُن کا رس چوسنے لگتے ہیں اور وہیں پر رس چوستے ہوئے تین مختلف حالتوں سے گزر کر پیوپا بن جاتے ہیں۔سفید مکھی کی زندگی کا کل دورانیہ مختلف موسموں کے لحاظ سے 14 سے 122 دن تک محیط ہوتا ہے اور ایک سال میں اس کی تقریباً 11 نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ سفید مکھی کی ایک بڑی تعداد کپاس کے پودوں پر پائی جاتی ہے۔ جدیدتحقیق کے مطابق اب سفید مکھی کے خوراکی پودوں کی تعداد500 تک ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں کپاس کے علاوہ بھنڈی، بینگن، بیلدار سبزیاں، سرسوں، مختلف اقسام کے آرائشی پودوں اور جڑی بوٹیوں پر بھی سفید مکھی کا حملہ دیکھا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ اتنے زیادہ خوراکی پودے ہونے کی وجہ سے سفید مکھی سال بھر اپنی تمام حالتوں میں موجود رہتی ہے اور پھر بعد میں کپاس کی فصل پر منتقل ہوجاتی ہے۔
سفید مکھی یوں تو سارا سال مختلف اقسام کے پودوں پر موجود رہتی ہے لیکن کپاس کے حوالہ سے سفید مکھی جون سے اکتوبر تک فعال رہتی ہے جبکہ سفید مکھی کی سب سے زیادہ آبادی وسط ستمبر سے اکتوبر میں پائی جاتی ہے۔ زیادہ دیر تک خشک سالی جس میں درجہ حرارت بھی زیادہ ہو سفید مکھی کی بڑھوتری کیلئے بہت سازگار ہیں۔ سفید مکھی کی بڑھوتری میں زیادہ درجہ حرارت مثبت کردار ادا کرتا ہے جبکہ ہوا میں نمی اور بارش اگر زیادہ ہو تو وہ سفید مکھی کی آبادی کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ کپاس میں کھادوں کا مناسب اور متناسب استعمال، قسم اور پودوں کی نوعیت اور زرخیزی کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق نائٹروجنی کھادوں کے زیادہ استعمال سے رس چوسنے والے کیڑوں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں امریکن سنڈی کا حملہ بھی زیادہ ہوتا ہے جبکہ نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش کے زیادہ استعمال سے بھی سفید مکھی کا حملہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ کپاس کی فصل کی مناسب آبپاشی کرنی چاہیے یعنی نہ بہت زیادہ اور نہ بہت کم۔ سفید مکھی کے موثر تدارک کیلئے ٹیکنیکل ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ہفتہ میں دو بار پیسٹ سکائوٹنگ کی جائے ۔ سفید مکھی کے انڈے، بچے اور بالغ کو مد نظر رکھتے ہوئے زرعی زدویات کا انتخاب کریں اور سپرے کیلئے 120تا150لٹر پانی استعمال کریں اور سات دن کے وقفے سے دوبارہ سپرے کریں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی