برآمدی صنعت نے حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں پر سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز کے سیکرٹری جنرل شاہد ستار نے ایک بیان میں کہاکہ برآمد پر مبنی صنعتوں کے لیے بجلی کے خصوصی ٹیرف کو معطل کرنے سے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ توانائی کی قلت اور بجلی اور گیس کی اونچی قیمتیں ان وجوہات میں شامل ہیں جنہوں نے بہت سے فیکٹری مالکان کو اپنے پیداواری یونٹ بند کرنے پر مجبور کیا۔30 مارچ کوحکومت نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس نے بجلی کے پیکیج کو معطل کر دیا ہے جو برآمد پر مبنی صنعتوں کو فراہم کیا جا رہا تھا۔پارلیمانی سیکرٹری برائے پاور رانا ارادت شریف نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایاکہ حکومت نے برآمد پر مبنی پانچ صنعتوں کے لیے بجلی کے خصوصی ٹیرف پیکج کو معطل کر دیا ہے اور اب انہیں عام نرخوں پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔گزشتہ سال حکومت نے پانچ برآمدی شعبوں کے لیے بجلی کی قیمت 19.99 روپے فی یونٹ مقرر کرنے کے لیے 100 ارب روپے کی سالانہ سبسڈی کا اعلان کیا۔شاہد ستارنے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ مشکل سے زندہ رہا کیونکہ اس کی پیداوار اور آمدنی اصل صلاحیت سے بہت کم تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ نامساعد حالات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو بند کر دیا گیا تو ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو پہلے ہی کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں بینکوں کی جانب سے خام مال کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنا، کپاس کی قلت، لیکویڈیٹی بحران اور گرتی ہوئی برآمدات شامل ہیں۔پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے بھی بجلی کے نرخوں پر سبسڈی واپس لینے کے حکومتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہاکہ یہ ہماری صنعت کو خطے میں غیر مسابقتی بنا دے گا۔ حکومت برآمدات پر مبنی صنعت کے لیے بجلی کا پیکیج فوری طور پر بحال کرے۔ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے انرجی ٹیرف پر سبسڈی بحال نہیں کی گئی تو انڈسٹری کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر اس فیصلے کی وجہ سے برآمدات میں کمی آئی تو پاکستان کو زرمبادلہ میں مزید نقصان ہو گا جس کا مقصد چند ارب روپے بچانا ہے۔تاہم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ فیلو محمد ذیشان نے کہا کہ برآمدی سبسڈی کا خاتمہ بین الاقوامی تجارت میں مسابقت کو بڑھانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ ان سبسڈیز کے خاتمے کے بعد فرمیں زیادہ خود کفیل ہونے اور کامیابی کے لیے نئی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہوں گی جس کے نتیجے میں نجی شعبہ زیادہ متحرک اور لچکدار ہوگا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ برآمدی صنعت کو سبسڈی کا مطالبہ کرنے کے بجائے کاروبار کے جدید آلات کو اپنانا چاہیے جو کہ ملک موجودہ معاشی صورتحال میں برداشت کرنے سے قاصر ہے۔انہوں نے کہا کہ اعلی درآمدی محصولات کا خاتمہ فرموں اور صارفین دونوں کے لیے درمیانی اور آخری کھپت کی اشیا تک زیادہ سستی رسائی فراہم کرے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی