پاکستان بدھ غاروں کو محفوظ کر کے سیاحت کے فروغ سے آمدنی کما سکتا ہے،صدیوں پرانا عجوبہ اسلام آباد کے گاوں شاہ اللہ دتہ میں واقع،سادھو کا باغ بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز،شیر شاہ سوری کا کنواں اور بدھسٹ اسٹوپا بھی قریبی پہاڑیوں میںموجود،مارگلہ ہلز کی کرشنگ مشینیں آثار قدیمہ کیلئے خطرہ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بدھ غاروں کو محفوظ کر کے سیاحت کے فروغ سے آمدنی کما سکتا ہے۔ یہ صدیوں پرانا عجوبہ اسلام آباد کے گاوں شاہ اللہ دتہ میں واقع ہے۔ ہندو اور بدھ مت کے راستوں سے لے کر مغلوں کی فتوحات تک یہ جگہ کثیر مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کا گہوارہ رہی۔محکمہ آثار قدیمہ کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود حسین شاہ نے ویلتھ پاک سے بات چیت میں کہاکہ اسلام آباد میں بدھ غاریں ہیں جوچھتوں اور چھوٹی سرنگوں کے سلسلے میں کٹاو کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی نے اس جگہ کو بدھ غاروں کا نام دیا۔ تقسیم سے پہلے یہاں اور آس پاس کے علاقوں میں ہندو برادری رہتی تھی۔ یہ جگہ سادھو نامی ہندو کی جاگیر تھی۔ اسی طرح بدھ غاروں کے دامن میں ایک باغ بھی لگا ہوا تھا۔
ڈاکٹر احمد نے اس کا نام سادھو دا باغ رکھا۔ تقسیم کے بعدہندووں نے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور اب یہ حکومت کی ملکیت ہے۔ بدھ غاروں میں کبھی کسی نے رہائش نہیں کی لیکن یہ متعدد برادریوں اور مذاہب ہندووں، بدھسٹوں، کے لیے ایک باقاعدہ مقدس مقام تھاتاہم کسی بھی قسم کے باقاعدہ مندر کے آثار ابھی تک نہیں ملے۔ چونکہ یہ جگہ ٹیکسلا وادی کے قریب تھی جو ایک زمانے میں بدھ تہذیب کا مرکز تھااس لیے زیادہ تر راہب، مسافر، تاجر اور فاتح اس جگہ کو باقاعدہ راستے اور عارضی رہائش کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسے شاہراہ ریشم کی ایک شاخ سمجھا جا سکتا ہے۔ محمود حسین نے اردگرد کی پہاڑیوں میں دریافت کیے گئے شیر شاہ سوری کے بنائے ہوئے قدیم کنویں کی باقیات کا بھی بتایا۔ مغلوں نے اپنے دور حکومت میں یہاں پانی کا باقاعدہ تالاب بھی بنایا تھا۔ مسلمان فاتحین کی تعمیر کردہ ایک چھوٹی مسجد بھی وہیں واقع ہے۔ ایک بدھسٹ اسٹوپا بھی قریبی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ غاروں سے تقریبا دو کلومیٹر اوپر جس علاقے میں یہ اسٹوپا پایا جاتا ہے اسے بن فقیراں کہتے ہیں۔ وہاں سے پانی کا ایک سلسلہ غاروں اور باغ کی طرف بہتا تھا۔
انہوں نے اس آثار قدیمہ کے اثاثے کو بچانے کے لیے ارد گرد کی پہاڑیوں میں پتھروں کو کچلنے والی مشینوں کو کام کرنے سے روکنے کے لیے ڈاکٹر حسن کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بدھ غاروں کے خود ساختہ متولی محمد اسماعیل عباسی نے کہاکہ غاروں کا رقبہ 45,740 مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں ایک تاریخی باغ بھی ہے جس کا نام مقامی زبان میں سادھو دا باغ ہے۔ یہ غاروں کے دامن میں واقع ہے اور اس کا رقبہ 92,765 مربع فٹ ہے۔ منسلک باغ کے ساتھ ایک جنگل تقریبا 4,356,000 مربع فٹ کے رقبے پر محیط ہے۔ ایک زمانے میں، غاروں کے گردونواح بدھ برادری کے رہنے کی جگہ تھی اور غاروں سے منسلک پلیٹ فارم کو کمیونٹی کے اجتماع کی جگہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بدھ مت سے پہلے یہ ہندو برادری کے لیے بھی ایک مقدس مقام تھا۔ ہم ہندو بھگوان رام، ان کی بیوی سیتا، اور ان کے بھائی لکشمن کے 14 سال کی جلاوطنی کے دوران اس جگہ پر رہنے کے بارے میں کہانیاں سن سکتے ہیں۔ قدیم زمانے کا ایک قدرتی زیر زمین چشمہ بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ اسے ہندو اور بدھ مت کے آرتھوڈوکس دونوں کے لیے پانی کا مقدس چشمہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس پانی سے بہت سی رسومات ادا کرتے تھے۔ چشمہ اب بھی ایک وسیع علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی پہلے ماہر آثار قدیمہ تھے جنہوں نے ان کھنڈرات پر کام شروع کیا۔ 2004 کے بعد یہ جگہ رفتہ رفتہ آثار قدیمہ کے اثاثے کے طور پر مشہور ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تقسیم کے بعد یہ جگہ ان کے خاندان کی تھی اور وہ اسے آثار قدیمہ کے طور پر بحال کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو اس جگہ کی تاریخی اہمیت کے تحفظ پر توجہ دینی چاہیے اور کرشنگ مشینوں کو ہٹا دینا چاہیے۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی