• Dublin, United States
  • |
  • May, 18th, 24

شِنہوا پاکستان سروس

نہر سوئز کے ذریعے خوشحالی مصریوں سے کھوکھلا وعدہ ثابت ہوئیتازترین

April 26, 2024

قاہرہ (شِنہوا) مصر کی  موجودہ سعید بندرگاہ کے ساحل پر ایک فرانسیسی شخص نے 25 اپریل 1859 کو پیش کی گئی توپ کی سلامی کے مقام کے ساتھ کدال مارکر ایک انسانی تخیل کو عملی شکل دینے والے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کیا، ایک دہائی پر محیط یہ منصوبہ خاصا خون آلود رہا۔

مصر کے اسکندریہ میں فرانس کے سابق نائب قونصل فرڈینینڈ ڈی لیسیپس نے تقریب میں موجود مصری کارکنوں سے کہا تھا کہ یاد رکھیں کہ آپ صرف زمین کا نقشہ تبدیل نہیں کررہے ہیں بلکہ اپنے خاندانوں اور اس خوبصورت سرزمین دونوں میں خوشحالی لا رہے ہیں۔

تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے ثابت کیا ان کی تقریر مغربی استعمار کا ایک اور کھوکھلا وعدہ تھا۔

اس نہر کی کھدائی کے دوران 1 لاکھ 20 ہزار مصری شہریوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور نہر مکمل ہونے پر برطانیہ اور فرانس نے اہم سمندری تجارتی راستے پر کنٹرول کے لئے سازش کرتے ہوئے قرضوں کا جال بچھایا اور مصر سے جنگ بھی  کی جس نے اس کی آبادی کو ایک صدی طویل مصیبت میں دھکیل دیا۔

مصر کی نہر سوئز اتھارٹی کے بورڈ رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے وائل قدور نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ شاید دوسروں کی نگاہ میں یہ نہر صرف ایک تجارتی راستہ ہے لیکن مصریوں کے لیے یہاں خون اور آنسو بہہ رہے ہیں۔

80 سالہ بزرگ شخص نے کہا ہے کہ یہ ہمارے زندگیوں کا حصہ ہے۔

جمعرات کو نہر سوئز کی کھدائی کی 165 ویں سالگرہ منائی گئی۔ نہر کی کہانی 1854 سے شروع ہوتی ہے، اس وقت کے مصری حاکم محمد سعید نے ڈی لیسپس کو اس نہر کی تعمیر کے لئے ایک کمپنی قائم کرنے اور اس کی ملکیت مصر کو واپس کرنے سے قبل  99 سال تک چلانے کی اجازت دی تھی۔

اس اجازت کے تحت مصر نے نہر کی کھدائی اور انتظامی حقوق ڈی لیسپس کی قائم کردہ نہر سوئز کی یونیورسل کمپنی کے سپرد کردی تھی جبکہ نہری منصوبے کے لیے زمین اور افرادی کے چوتھائی کا پانچواں حصہ بلا معاوضہ فراہم کیا۔

مصری صوبے اسماعیلیہ میں نہر سوئز سے ایک بڑابحری جہاز گزرہا ہے۔ (شِنہوا)

نہر کی کھدائی کے لئے 20 کروڑ فرانک درکار تھے جس کے لئے  ڈی لیسیپس کی کمپنی نے فنڈز کو 4 لاکھ شیئرز میں تقسیم کرکے عوام کو پیش کردیئے۔ تاہم اس میں صرف آدھے کی فروخت ہوسکی ،مصر نے ایک لاکھ سے کم شیئرز خریدے۔ برطانیہ، امریکہ، آسٹریا اور روس کے لیے مختص کردہ شیئرز میں سے کسی کو بھی خریدار نہیں ملا۔

فرانسیسی اس نہر سوئز منصوبے کو کامیاب بنانا چاہتے تھے، انہوں نے مصریوں کو باقی شیئرز خریدنے کی ترغیب دی تاہم مصر کی پہلے سے خستہ مالی حالت کے پیش نظر اتنی بڑی رقم کا انتظام ممکن نہ تھا۔ ایسے میں سعید کے پاس برطانیہ اور فرانس سے بھاری شرح سود پر بھاری رقم ادھار لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

جیسے جیسے کھدائی آگے بڑھی اخراجات بڑھتے گئے مصر کے پاس برطانیہ اور فرانس سے قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا جس کے لئے مصری ریلوے، زمین اور یہاں تک کہ مستقبل کی نہری آمدن بھی یورپی ممالک کو ضمانت کے طور پر دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جب نہر مکمل ہوئی تو مصر مالی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

یورپی سرمایہ بڑی حد تک مصری زرعی معیشت کو نگل چکا تھا۔ پولش- جرمن سیاسی مفکر روزا لکسمبرگ نے لکھا کہ زمین، مزدور اور متعدد لیبر مصنوعات ٹکڑوں میں بٹ کر یورپی دارالحکومت میں تبدیل ہوچکے تھے جنہیں بعد میں یکجا کردیا گیا۔

نہر کی تعمیر کے آغاز سے لیکر 1870 کی دہائی کے وسط تک مصر کے بیرونی قرضوں میں 23 گنا اضافہ ہوا  جبکہ آمدن صرف پانچ گنا بڑھی ۔ قرض اور اس کے سود کی ادائیگی پر ریاستی آمدن کا 2 تہائی حصہ خرچ ہونے لگا۔

تیزی سے بڑھتے قرض سے تنگ مصر نے 1876 میں دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا۔ برطانوی قرض دہندگان سے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہر سوئز میں مصر کے حصے پر دعویٰ کردیا اور یوں مغربی قوتوں نے ایک بھی گولی چلائے بغیر نہر پر مکمل قبضہ کرلیا۔