امریکی حکومت کی جانب سے عائد پابندی کے باوجود مستقبل قریب میں اربوں ڈالرز مالیت کا امریکی اسلحہ اسرائیل کو فراہم کیا جائے گا۔ ایک اعلی امریکی عہدیدار نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر نظرثانی کی جا رہی ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ اسے رفح میں فوجی آپریشن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل کو بموں کی ایک کھیپ بھیجی نہیں گئی۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل پر رفح میں آپریشن نہ کرنے کے لیے زور دیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں لاکھوں فلسطینی شہری موجود ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ میں شامل عہدیداران کے مطابق اسلحے کی فروخت کے دیگر معاہدوں پر بھی نظرثانی کی جا رہی ہے جبکہ صدر جو بائیڈن نے 8 مئی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے رفح میں کارروائی کی تو امریکا کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کو روک دیا جائے گا۔ امریکی ایوان نمائندگان کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی نے اسرائیل کے لیے 18 ارب ڈالرز مالیت اسلحے کی سپلائی کو روک رکھا ہے۔ مگر روکا گیا اسلحہ اس 26 ارب ڈالرز مالیت کے اس پیکج کا حصہ نہیں جس کی منظوری اپریل 2024 میں دی گئی تھی۔ اس پیکج کے تحت اسرائیل کو 14 ارب ڈالرز کی فوجی امداد بھی دی جائے گی۔ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے باعث امریکی صدر کو شدید مخالفت کا سامنا ہے، خاص طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کے جوان عہدیداران کی جانب سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ اسی کے باعث اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے کے عمل پر نظرثانی کی جا رہی ہے اور کچھ ڈیموکریٹ رہنماں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ مگر وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے ترجمان John Kirby نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو وہ تمام اسلحہ فراہم کیا جائے گا جو اس کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن اسرائیل کو وہ سب کچھ فراہم کریں گے جس کی اسے ضرورت ہوگی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی