پاکستان کی معیشت نے حال ہی میں استحکام کے آثار دکھائے ہیںجس کی نشاندہی ترسیلات اور برآمدات میں مثبت رجحانات اور افراط زر میں خاطر خواہ کمی سے کی گئی ہے تاہم طویل مدتی استحکام کے حصول کے لیے ساختی اصلاحات پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ساجد امین نے کہا کہ معاشی اعتماد کو بڑھانے والے اہم عوامل میں سے ایک ترسیلات زر میں اضافہ ہے۔ تازہ ترین رجحان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس سے زرمبادلہ کے انتہائی ضروری ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ فنڈز کا یہ بہا ومعیشت کو بیرونی دباو سے بچانے میں مدد کرتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان کے درآمدی بل نے ادائیگیوں کے توازن پر بہت زیادہ دباو ڈالا ہے۔مزید برآں، ملک کی افراط زر کی شرح جو کہ کاروباریوں اور صارفین دونوں کے لیے کافی عرصے سے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ اکتوبر 2024 میں، افراط زر کی شرح سال بہ سال 7 فیصد تک گر گئی جو کہ سال کے شروع میں تجربہ کردہ دوہرے ہندسوں کی افراط زر سے کم ہے۔ان مثبت اشاریوں کے باوجودامین نے خبردار کیا کہ پاکستان کی بحالی بیرونی دباو اور گھریلو چیلنجوں کے لیے خطرے سے دوچار ہے۔ اگرچہ تیل کی قیمتوں میں کمی یقینی طور پر معیشت پر کچھ دبا وکو کم کرے گی لیکن ساختی عدم توازن کو اب بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا درآمدات پر انحصار، خاص طور پر توانائی اور خام مال کے لیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں کسی بھی تیزی سے تبدیلی ملک میں ہونے والی پیش رفت کو ختم کر سکتی ہے۔
ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے سفارش کی کہ پاکستان کو لچک برقرار رکھنے کے لیے فعال اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل چیلنج ان مثبت پیشرفتوں کو پائیدار اقتصادی ترقی میں ڈھالنے میں ہے۔ اس میں مالیاتی نظم و ضبط کو بہتر بنانا، معیشت کو متنوع بنانا اور ساختی اصلاحات کا نفاذ شامل ہے جس کا مقصد درآمدات پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ان اقدامات کے بغیر، معیشت کو حاصل کردہ فوائد کو تبدیل کرنے کا خطرہ رہتا ہے، خاص طور پر جب بیرونی حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ امین نے مشاہدہ کیا کہ طویل مدتی معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کا انحصار ان گہرے چیلنجوں سے نمٹنے کی حکومت کی صلاحیت پر ہوگا جب کہ قلیل مدتی بہتری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔وزارت خزانہ کے اکتوبر 2024 کے ماہانہ اقتصادی آوٹ لک کے مطابق ترسیلات زر، برآمدات، درآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں 92.1 فیصد کمی کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افراط زر کی شرح 29 فیصد سے کم ہو کر 9.2 فیصد ہو گئی ہے، حالانکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران بڑی صنعتوں میں پیداوار میں 0.19 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ترسیلات زر 38.8 فیصد بڑھ کر 8.78 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ برآمدات 7.8 فیصد اضافے سے 7.49 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک