پاک چین مشترکہ منصوبے صنعتی تعاون، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور خصوصی اقتصادی زونز اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کی کلید ہیں۔ یہ شراکتیں صنعتی ترقی اور علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتی ہیں لیکن کامیاب ہونے کے لیے واضح حکمت عملی، مالی حمایت اور شفاف ضوابط کی ضرورت ہے۔سی پیک سینٹر کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر اور سسٹین ایبل پالیسی ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر مشیر ڈاکٹر حسن داود بٹ نے کہا کہ مشترکہ منصوبے پاکستان اور چین کے درمیان صنعتی تعاون کو گہرا کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر خصوصی اقتصادی زونز کی صلاحیت پر زور دیاجنہیں صنعتی تعاون اور تکنیکی ترقی کے مراکز کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ہر خصوصی اقتصادی زونزکو مخصوص جغرافیائی طاقتوں اور پیداواری صلاحیتوں کے مطابق بنایا گیا ہے جسے چینی فرموں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ٹیکنالوجی، مینوفیکچرنگ اور زراعت جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے یہ زون معاشی تبدیلی کے انجن بن سکتے ہیںجو مقامی صنعتوں کو چینی مہارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔انہوں نے ان مشترکہ منصوبوں میں تنوع کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو نہ صرف روایتی شعبوں پر انحصار کرنا چاہیے بلکہ ہائی ٹیک صنعتوں کو بھی تلاش کرنا چاہیے جہاں چینی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی کی منتقلی سے پاکستان کی صنعتی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
قابل تجدید توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن، اور جدید مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں تعاون پاکستان کے معاشی منظر نامے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے سینٹر آف ایکسی لینس سی پی ای سی کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر اور پی آئی ڈی ای میں مالیاتی پالیسی سیکشن کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کا سٹریٹجک مقام نہ صرف چین اور مشرق وسطی کے درمیان بلکہ پڑوسی ممالک افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی جمہوریہ کے درمیان بھی تجارت کے لیے ایک راستے کا کام کر سکتا ہے۔مینوفیکچرنگ، تعمیراتی مواد اور ٹیکنالوجی جیسی صنعتوں میں مشترکہ منصوبوں میں مشغول ہو کریہ قومیں مشترکہ مہارت، وسائل اور مارکیٹ سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس طرح کے انضمام سے ایک زیادہ باہم مربوط اور خوشحال علاقائی معیشت قائم ہوگی۔تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ان منصوبوں کی کامیابی کا انحصار محتاط منصوبہ بندی اور شفاف ریگولیٹری فریم ورک پر ہے۔ سرحد پار تعاون کی پیچیدگیوں پر قابو پانے کے لیے واضح پالیسیاں، موثر مواصلت اور باہمی فائدے پر توجہ ضروری ہو گی۔انہوں نے زور دیاکہ ایک بڑی رکاوٹ منصوبے میں شامل مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور مشترکہ منصوبے تمام فریقوں کے لیے فائدہ مند ہونے کو یقینی بنانے کے لیے مزید شفاف ریگولیٹری فریم ورک کی بھی ضرورت ہے۔ان مشترکہ منصوبوںکی کامیابی کے لیے سیاسی استحکام اور علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ مضبوط سیاسی ارادے اور ہمسایہ ممالک کو قریب میں لانے کی سفارتی کوششوں کے بغیر، علاقائی انضمام کے لیے ایک ماڈل کے طور پر سی پیک کی مکمل صلاحیت غیر حقیقی رہ سکتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک