کراچی میں ہزاروں پاور لوم یونٹس بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں، پیداوار کے اخراجات میں اضافے اور طلب میں کمی کے باعث بند ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔صنعتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو شہر میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور ٹیکسٹائل برآمدات میں تیزی سے کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے جو ملکی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔کراچی کی ٹیکسٹائل صنعت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی پاور لوم انڈسٹری کئی دہائیوں سے لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے۔ یہ یونٹس جو چھوٹی ورکشاپس سے لے کر درمیانے درجے کی فیکٹریوں تک ہیں مقامی اور برآمدی دونوں مارکیٹوں کے لیے کپڑا تیار کرتے ہیںمگر حالیہ معاشی بحران نے اس صنعت کو سخت متاثر کیا ہے۔بجلی کے نرخوں میں شدید اضافہ ہوا ہے جس کے باعث بہت سے کارخانے اپنے اخراجات برداشت نہیں کر پا رہے۔ مالکان کے مطابق، بجلی کے بل تقریبا دگنے ہو چکے ہیںجبکہ سوت اور رنگ جیسی خام مال کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ بلند شرحِ سود اور مہنگائی نے منافع کو تقریبا ختم کر دیا ہے۔ہم ہر مہینے صرف بجلی کے بل اور مزدوروں کی تنخواہیں دینے کے لیے کام کر رہے ہیں، ایس آئی ٹی ای کے علاقے کے ایک لوم مالک امجد خان نے بتایاکہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہمیں فیکٹری بند کرنا پڑے گی۔کراچی کے صنعتی علاقوں کورنگی، ایس آئی ٹی ای اور اورنگی ٹاون میں کئی چھوٹی پاور لوم فیکٹریاں یا تو پیداوار کم کر چکی ہیں یا بند ہو گئی ہیں۔ روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ فیکٹریاں شفٹیں کم کر رہی ہیں یا تنخواہیں روک رہی ہیں۔
کچھ مزدور برسوں بعد اپنے آبائی علاقوں کو واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔یہ صورتحال پاکستان کے دیگر ٹیکسٹائل مراکز میں بھی دیکھی جا رہی ہے جہاں بڑھتی ہوئی لاگت اور کمزور برآمدات نے صنعت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ تاہم کراچی میں مسئلہ زیادہ سنگین ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر خام مال درآمد ہوتا ہے اور دیگر شہروں کے مقابلے میں بجلی و گیس کے نرخ زیادہ ہیں۔صنعتی نمائندوں کے مطابق اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو اگلے چھ ماہ میں کراچی کی تقریبا 40 فیصد پاور لومز بند ہو سکتی ہیں۔ اس سے ہزاروں ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدور بیروزگار ہو جائیں گے۔پاور لوم ایسوسی ایشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بارہا فوری ریلیف دینے کی اپیل کی ہے جن میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی، ٹیکس میں رعایت اور چھوٹی و درمیانے درجے کی ٹیکسٹائل یونٹس کے لیے سبسڈی کی بحالی شامل ہے۔ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل مصطفی طفیل نے کہاکہ اگر یہ شعبہ تباہ ہو گیا تو نہ صرف لوگوں کے روزگار ختم ہوں گے بلکہ حکومت کی ٹیکس آمدنی بھی گھٹ جائے گی۔ جب فیکٹریاں بند ہوں گی تو مزدور بیروزگار ہوں گے اور حکومت کو آمدنی نہیں ملے گی۔ ہمیں ایسی پالیسیاں چاہییں جو صنعتوں کو زندہ رکھیںنہ کہ ختم کر دیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکسٹائل کے تمام حصوں اسپننگ، ویونگ، ڈائنگ اور فنشنگ کے لیے مالی امداد کا ایک خصوصی پروگرام بنانا چاہیے تاکہ کارخانوں کی جدید کاری اور توانائی کے بہتر استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک