پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ میں شامل جنوبی افریقی کرکٹر ریسی ون ڈر ڈسن نے کہا ہے پاکستان میں کھیلنا ایک چیلنج ہے اور اس چیلنج کیلئے کافی پرجوش ہوں،انہوں نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ 8میں ٹیموں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں کافی سخت مقابلہ ہوگا ابتدائی دو میچز میں ہونے والے مقابلے نے اس کی ایک جھلک دکھا دی ہے،کراچی میں نجی ٹی وی کو انٹرویو میں تجربہ کار جنوبی افریقی کرکٹر نے کہا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ بالآخر پاکستان سپر لیگ کھیل پا رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے دو بار منتخب ہونے کے باوجود بھی وہ کسی نہ کسی وجہ سے لیگ کھیلنے سے محروم رہ گئے تھے،جنوبی افریقی کرکٹر نے کہا کہ یہاں پہلے ٹیسٹ سیریز کھیل چکے ہیں، گو کہ وہ مختلف بال کی کرکٹ تھی مگر اس سے کنڈیشنز کا اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کس طرح بیٹنگ کرنی ہے،ریسی ون ڈر ڈسن نے کہا کہ انہیں پاکستان پسند ہے اور یہاں کے لوگ کافی مہمان نواز ہیں، پہلے کووڈ ببل کی پابندیاں تھیں لیکن اس بار ان کے پاس موقع ہے کہ وہ لوگوں سے ملاقات کرسکیں،ریسی ون ڈر ڈسن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی ٹیم جارح مزاج کرکٹ کھیلتی ہے، ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اسلام آباد کے برانڈ آف کرکٹ کے سانچے میں خود کو ڈھالیں، ٹیم کیلئے تسلسل کے ساتھ پرفارم کریں، ان کا کہنا تھا کہ انفرادی اہداف زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں، زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اس اسکواڈ کا حصہ ہوں جو ٹائٹل جیتیں،ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی کہ ذمہ داری کے ساتھ ٹورنامنٹ میں ایسی کارکردگی دکھائیں جس سے ٹیم کو فائدہ ہو، جنوبی افریقی بیٹر نے کہا کہ پی ایس ایل میں تمام ٹیمیں مضبوط ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی ٹیم زیادہ اچھی ہوگی، ہر ٹیم کے پاس بہتر سے بہتر بولنگ اٹیک ہے اور اس صورتحال میں یہ لیگ بیٹرز کیلئے کافی چیلنجنگ ہوگی،ریسی ون ڈر ڈسن کا کہنا تھا کہ وہ پی ایس ایل کو ہمیشہ فالو کرتے رہے ہیں، دیگر پلیئرز سے بھی لیگ کے بارے میں بات ہوئی اور ہر کسی نے اس کو اعلی معیار کی لیگ قرار دیا، یہاں ہر ٹیم کے پاس ایسے بولرز ہیں جو تسلسل کے ساتھ 140کی رفتار سے بولنگ کرسکتے ہیں، ٹاپ کلاس اسپنرز اور اچھے بیٹسمین بھی ہیں، اس ٹورنامنٹ میں کافی سخت مقابلہ ہونا ہے جس کی جھلک ابتدائی دو میچز میں نظر آچکی ہے،ایک سوال پر جنوبی افریقی بیٹسمین نے کہا کہ ماضی میں ہر لیگ کی چیمپئن ٹیم کے درمیان ہونے والا چیمپئنز لیگ زبردست ٹورنامنٹ تھا، اگر ایسا ٹورنامنٹ دوبارہ ہوا تو مزہ آئے گا، دنیا بھر کی لیگز کھیل کر پلیئرز کو فائدہ ہوتا ہے مگر ہر پلیئر کی ترجیح انٹرنیشنل کرکٹ ہی ہوتی ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے ملک کیلئے کھیلنا چاہتا ہے، ضروری ہے کہ لیگ اور انٹرنیشنل کرکٹ میں توازن برقرار رہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی