جنوبی افریقا کے اسپنر تبریز شمسی نے بابر اعظم سے مقابلے پر نگاہیں مرکوز کر لیں، ان کا کہنا ہے کہ عظیم پاکستانی بیٹر کو قابو کرنے کی حکمت عملی اینالسٹ کے ساتھ بیٹھ کر بنائوں گا اسپنر تبریز شمسی گرین شرٹس سے سیریز کیلیے جنوبی افریقی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شامل ہیں، پاکستانی کرکٹ ویب سائٹ کو ویسٹ انڈیز سے دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ سیریز میں بابر اعظم کو آئہٹ کرنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاص حکمت عملی نہیں بنائی، میری توجہ گیانا کے ٹورنامنٹ پر رہی، مگر میں ان کے خلاف پہلے بھی کھیل چکا ہوں لہذا ذہن میں آئیڈیا ہے کہ کیا کرنا چاہیے، وہ عظیم کھلاڑی ہیں، واپسی پر اینالسٹ کے ساتھ بیٹھ کر ایسے پلانز بنائوں گا جو ٹیم کے کام آ سکیں۔ ملکی معاہدہ قبول نہ کرتے ہوئے بطور فری لانس کھیلنے والے اسپنر نے کہا کہ کوئی بھی فرنچائز لیگ ملک کی نمائندگی سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ تبریز شمسی نے کہا کہ یہ ایک ذاتی انتخاب تھا جو میں نے مختلف وجوہات کی بنا پر کیا لیکن میرے لیے جنوبی افریقا کی نمائندگی ہمیشہ اولین ترجیح رہی، اپنے ملک کے لیے کھیلنا سب سے زیادہ اہم ہے جس کا میں نے قومی کنٹریکٹ قبول نہ کرتے وقت بھی اظہار کیا، جب بھی قومی ٹیم کو ضرورت ہو میں ہمیشہ دستیاب رہتا ہوں،کوئی فرنچائز کرکٹ ملک کی نمائندگی سے بڑھ کر نہیں ہے، میرے لیے یہی اولین ترجیح ہے، بطور بولر میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ جس میچ میں بھی حصہ لوں اپنی بولنگ یا پھر بیٹنگ سے بھی ٹیم کو فتح دلاں مگر کرکٹ ایک فنی گیم ہے، نتائج کبھی آپ کے حق تو کبھی خلاف رہتے ہیں، کپتان اور کوچ مجھ سے جو چاہتے ہیں میں ویسا ہی کرتے ہوئے ٹیم کی فتح میں کردار نبھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
جدید کرکٹ میں اسپنرز کے کردار پر تبریز شمسی نے کہا کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ شروع ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ اب اسپنرز کا زوال ہوگا لیکن حقیقت برعکس نکلی، سلو بولرز نے ہمیشہ ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فیلڈ میں پابندیوں، پاور پلے جیسی چیزوں کی وجہ سے بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ قوانین بیٹرز کے لیے زیادہ سازگار ہیں، لوگ چوکے چھکے دیکھنا چاہتے ہیں لہذا زیادہ تر میچز فلیٹ پچز پر ہوتے ہیں، وکٹیں لینے اور رنز کی رفتار کم کرنے کے لیے ہم ہمیشہ مختلف حکمت عملی اور پلانز کے ساتھ سامنے آتے ہیں، اسپنرز اپنی ٹیم کے حق میں میچ کا نتیجہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کھلاڑیوں کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہیسوشل میڈیا پر کافی متحرک تبریز شمسی کھلاڑیوں کو نشانہ بنائے جانے پر ناخوش ہیں، انھوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کھلاڑیوں کو آن لائن تنقید کا نشانہ بنانا درست ہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، میں نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی کہ ہمیشہ جنوبی افریقا کے لیے دستیاب ہوں۔ تبریز شمسی کا منفرد جوتے کا جشن مداحوں میں بہت مقبول ہے، البتہ حال ہی میں ایک انڈر 19 کرکٹر نے اس کی نقل کرتے ہوئے خود کو زخمی کر لیا۔ تبریز شمسی نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات تھی البتہ مجھے امید ہے کہ وہ جلد صحتیاب ہو کر میدان میں واپس آئے گا۔ ی ٹوئنٹی کرکٹ کی وجہ سے ون ڈے کی اہمیت کم نہیں ہوئی، سب ورلڈکپ جیتنا چاہتے ہیں اس کی اب بھی ٹی ٹوئنٹی کے میگا ایونٹ سے زیادہ اہمیت ہے، آپ کو اپنے ملک کی نمائندگی کا جہاں بھی موقع ملے تو وہ اہم ہوتا ہے۔ ٹیسٹ، ون ڈے ہو یا ٹی ٹوئنٹی بطور کھلاڑی ہمیں جہاں بھی چانس ملے اس میں عمدہ کھیل پیش کر کے اپنی ٹیم کو فتح دلانا چاہیے۔
انھوں نے چیمپیئنز ٹرافی کیلیے جنوبی افریقی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا۔ تبریز شمسی نے گلوبل سپر لیگ میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کو اپنے لیے یادگار تجربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایک بڑے شہر کی فرنچائز کا حصہ بننا زبردست تجربہ رہا، یہ ٹیم 2 بار پی ایس ایل بھی جیت چکی، ان کے ساتھ کھیلنا میرے لیے اعزاز تھا، قلندرز کا سیٹ اپ نہایت پیشہ ورانہ اور اچھا ہے، ویسٹ انڈیز میں بھی سب کچھ بہت آسانی اور خوش اسلوبی سے چلتا رہا، مجھے اس ٹیم کی نمائندگی کر کے اچھا لگا۔ پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی نمائندگی کرنے والے تبریز شمسی نے ماضی میں پاکستان کے دورے کو مجموعی طور پر ایک اچھا تجربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ لیگ کا حصہ بننا شاندار تھا مگر زیادہ تر میچز میں ہم نے اپنی کارکردگی سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے۔ تبریز شمسی نے پاکستانی کھلاڑیوں خاص طور پر اسپنرز کی مہارت کو سراہا، ان کے مطابق کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے البتہ سعید اجمل ایک مثالی کھلاڑی تھے، میں ان کی بولنگ کا مشاہدہ کرتا تھا، وہ گیند کو دونوں طرف گھمانے کی مہارت رکھتے تھے، ہم دونوں کی بولنگ کا انداز بھی ایک سا ہے، بریڈ ہوگ کی بولنگ بھی میں دیکھتا رہا ہوں۔ تبریز شمسی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں شکست کو افسوسناک لمحہ قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ ماضی کی ناکامیوں سے آگے بڑھنا ضروری ہے، ہم کچھ بھی کر لیں سابقہ نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتے، افسوس اس بات کا تھا کہ ہم فتح کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، ہماری توجہ اب مستقبل پر ہے، اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی