تاجر رہنما اوراسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سال میں پہلی بار کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو گیا ہے مگر اس سے گرتی ہوئی کرنسی اورمعیشت کو کوئی سہارا نہیں ملے گا ۔ مارچ میں حسابات جاریہ 654 ملین ڈالر کے سرپلس میں بدل گیا مگر اسکی وجہ برآمدات، ترسیلات زر یا غیر ملکی سرمایہ کاری کا نہیں ہے بلکہ یہ مقصد درامدات بند کر کے حاصل کیا گیا گیا ہے ۔شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ نومبر 2020 کے بعد پہلا ماہانہ سرپلس ریکارڈ کیا لیکن یہ درآمدات میں 11.25 بلین ڈالر کی کمی کر کے حاصل کیا گیا ہے جس سے مینوفیکچرنگ کو نقصان پہنچا، بہت سی فیکٹریوں کی بند ہو گئیں، لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ، ٹیکس وصولی میں کمی آئی اور مہنگائی بڑھی۔ اس پالیسی سے جولائی تا مارچ کے عرصے میں اشیا کی برآمدات گزشتہ سال کے 23.71 بلین ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 21.09 بلین ڈالر رہ گئیں جبکہ اب بھی پورے سال کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ چھ ارب ڈالر کے قریب ہو گا جو پاکستان جیسے ملک کے لئے بہت زیادہ ہے جس کے زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں۔اس وقت حکومت آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کینے کی کوشش کر رہی ہے جس کے بعد دیگر زرائع سے بھی قرض لیا جا سکتا ہے لیکن تاحال تعطل برقرار ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری پائیدار نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے معیشت کو سست کیا گیا ہے جبکہ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قرضے کے ذریعے پورا کیا ہے جس سے معیشت پر بوجھ بڑھا ہے۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ ادائیگیوں کے غیر متوازن ہونے سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو جاتا ہے اور سرمایہ کاروں کی جانب سے منفی ردعمل کا خطرہ رہتا ہے جس سے کرنسی کی قدر میں گراوٹ آتی ہے جو عوام کے معیار زندگی میں کو متاثر کرتی ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی