دنیا میں ادرک کی پیداوار میں پاکستان 41ویں نمبر پر ہے اورسالانہ پیداوار صرف 122ٹن ہے۔2020میں پاکستان نے 93ہزار میٹرک ٹن ادرک درآمد کی،مانسہرہ اور شنکیاری اس کی کاشت کیلئے موزوں علاقے ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق ادرک کی کاشت کسانوں کو بہترین منافع دے سکتی ہے۔قومی زرعی تحقیقی مرکز کے پرنسپل سائنٹفک افسر ڈاکٹر غلام جیلانی نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ پاکستان میں ادرک اگانے کے وسیع مواقع ہیں اور ہمیں ادرک درآمد نہیں کرنی پڑے گی۔ادرک ایک نقد آور فصل ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ 22فیصد ہے اور 37فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ڈاکٹر غلام جیلانی نے کہا کہ درآمدات پر انحصار کم کرنے کیلئے ہمیں ادرک کی مقامی کاشت کو فروغ دینا ہو گا۔پی اے آر سی کے چیئرمین غلام محمد علی نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ ہم ادرک کی پنجاب میں کاشت کیلئے مختلف ملکوں سے بیج منگوا رہے ہیں اور ہمارا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ادرک کی فصل کو کم درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے
۔مانسہرہ اور شنکیاری اس کی کاشت کیلئے موزوں علاقے ہیں۔قومی زرعی تحقیقی مرکز کے ایک اور افسر ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ ادرک کی پیداوار میں پاکستان 41ویں نمبر پر ہے۔انہوں نے کہا کہ ادرک کے لیے ہمارے پاس 27500ہیکٹر رقبہ موجود ہے جس سے 122ٹن ادرک پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مقامی ضرورت کیلئے ناکافی ہے۔2020میں پاکستان نے 93ہزار میٹرک ٹن ادرک درآمد کی جو چین اور تھائی لینڈ سے منگوائی گئی۔انہوں نے تجویز دی کہ ساحلی علاقے ادرک کی کاشت کیلئے موزوں ہو سکتے ہیں کیونکہ وہاں درجہ حرارت بھی کم ہوتا ہے اور مطلوبہ نمی بھی موجود ہوتی ہے۔اگر ہم جدید ٹیکنالوجی کو اپنائیں تو ادرک کی فصل میں خود کفیل بن سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک نقد آور فصل ہے جس سے کاشتکار زیادہ منافع حاصل کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ حکومت اس سلسلے میں کسانوں کی تربیت کرے اور سیمینارز کا اہتما م کرے ۔ادرک کی کاشت سے کسان معاشی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی