چیف جسٹس پاکستان نے توہین عدالت کیس میں کہا ہے کہ یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی اور اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی طرف سے صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون پیش ہوئے اور کہا کہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے جواب جمع کرادیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں وکلا کے جواب بظاہر مناسب ہیں، جن کا جائزہ بعد میں لینگے، پہلے حکومتی وکیل کا موقف سن لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ عمران خان نے کسی بھی یقین دہانی اور عدالتی حکم سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا ہے، حالانکہ عمران خان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی، 25 مئی کو پہلا عدالتی حکم دن گیارہ بجے دیا گیا دوسرا شام 6 بجے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں احکامات کے درمیان کا وقت ہدایت لینے کیلئے ہی تھا لیکن عدالت کو نہیں بتایا گیا تھا کہ ہدایت کس سے لی گئی ہے، اگر کسی سے بات نہیں ہوئی تھی تو عدالت کو کیوں نہیں بتایا گیا، اس بات کی وضاحت تو دینی ہی پڑے گی، عدالت نے بابر اعوان اور فیصل چوہدری پر اعتماد کیا تھا، دونوں وکلا نے کبھی نہیں کہا انہیں ہدایات نہیں ملی، عمران خان کو عدالتی حکم کا کیسے علم ہوا، یقین دہانی پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کی جانب سے کرائی گئی تھی، پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا آغاز عمران خان سے ہوتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں بھی این او سی کی خلاف ورزی کی تھی، سپریم کورٹ میں عمران خان پر شرمناک کہنے پر توہین عدالت کا کیس چلا، دو مرتبہ عمران خان الیکشن کمیشن سے بھی معافی مانگ چکے ہیں، عدالت کئی مرتبہ تحمل کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس ماضی کے مقدمات سے مختلف ہے۔ وکیل احسن بھون نے کہا کہ عدالت نے حکومت کو وکلا کی عمران خان سے ملاقات کرانے کا حکم دیا، لیکن حکومت نے وکلا کی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ وکلا کا رابطہ نہیں ہوا تو یقین دہانی کس طرف سے کرائی گئی؟، کیا وکلا کی کسی سینئر لیڈر سے بات نہیں ہوئی تھی، کیا ٹیلی فونک رابطہ بھی نہیں کیا گیا تھا؟۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عمران خان سفر میں ہوں تو جیمر ساتھ ہوتے ہیں، میرا اسد عمر اور بابر اعوان سے رابطہ ہوا تو انہیں عدالتی کارروائی سے آگاہ کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اسد عمر رابطے کے وقت ریلی میں نہیں تھے، تصاویر کے مطابق تو اسد عمر ریلی میں تھے، جیمرز تھے تو اسد عمر سے رابطہ کیسے ہوا؟۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ اسد عمر سے رابطے کے وقت عدالت کا کوئی حکم جاری نہیں ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میڈیا پر بھی نشر کیا گیا تھا، عدالت نے 25 مئی کو توازن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، اسد عمر سے دوسری بار بھی رابطہ ہو سکتا تھا لیکن نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ 26 مئی کے حکم میں عدالت نے کہا کہ اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی