سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب کی رضا کارانہ سکیم واپسی ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2022 میں نیب ترامیم کے بعد سیکشن 25 اے بھی جرم تصور ہوگا، جو سزا پلی بارگین میں تھی وہی اب رضاکارانہ واپسی میں بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رقم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد سرکاری عہدہ پر 10 سال کے لیے پابندی ہوگی۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ موجودہ کیس کو نیب ترامیم کے بعد سنا جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ازخود نوٹس کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب کی ساری ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا، سرکاری ملازم پیسے دے کر کلین چٹ لیتا تھا پھر وہی کرتا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون میں جو سقم تھا وہ دور کر دیا گیا، یہ والی نیب ترمیم تو اچھی ترمیم ہے، کیس کے ساتھ منسلک کی گئی دیگر درخواستوں کو علیحدہ سنا جائے گا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 9 ستمبر 2016 کو نیب کیسز میں رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس لیا تھا، رقم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد عہدیداران کی دوبارہ بحالی پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی