سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کیا ہے عدالت نے تفتیشی افسر سے شہری واجد حسین کے 2018 سے لاپتا ہونے کے حوالے سے کارروائی کی تفصیلات طلب کیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اب تک اس کیس میں کیا پیشرفت ہوئی ہے؟۔تفتیشی افسر نے بتایا کہ واجد حسین کی بازیابی کے لئے متعدد جے آئی ٹی اجلاس ہوئے ہیں۔ مگر عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاسوں کے ذریعے صرف اہلخانہ کو امید دی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ جسٹس لاح الدین پنہور نے ریمارکس میں کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے میں جے آئی ٹیز کا کوئی رول نہیں ہے اور ان اجلاسوں سے کچھ نہیں ہوتا۔عدالت نے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ کیا لاپتا شہری کے موبائل نمبر کا سی ڈی آر نکالا گیا؟ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ سی ڈی آر نکلوانے کے لئے نمبر بھیجا گیا ہے۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ 2018 سے اب تک سی ڈی آر کیوں نہیں نکالا گیا۔عدالت نے تفتیشی افسر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ تین مہینے سے اس کیس کے تفتیشی افسر ہیں اور اتنے عرصے میں بھی سی ڈی آر نہیں نکال سکے۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ شہریوں کو سیاسی تعلقات یا ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر غائب کیا جاتا ہے، اور 2018 سے اب تک یہ بھی نہیں پتہ چل سکا کہ واجد حسین کہاں ہیں۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ایسے ہزاروں کیسز تاخیری حربوں کے باعث التوا کا شکار ہیں۔تفتیشی افسر نے عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکامی کے بعد جواب جمع کرانے کے لئے مزید مہلت مانگ لی، جس پر عدالت نے درخواست کی مزید سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی