i پاکستان

سینیٹر ثمینہ زہری اور وزیراعظم کی معاون رومینہ خورشید کا موسمیاتی انصاف کے ایجنڈے کو فروغ دینے پر اتفاقتازترین

October 21, 2024

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری اور وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں انسانی حقوق کے انضمام پر اتفاق کیا ہے۔ اتوار کے روز وزیر اعظم کی معاون محترمہ رومینہ خورشید کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کے دوران ، سنیٹر ثمینہ زہری نے موسمیاتی انصاف کے ایجنڈے کو فروغ دینے اور ایک قابل عمل ایکشن پلان کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ موسمیاتی اقدامات نہ صرف ماحولیاتی مسائل کو حل کریں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والی کمزور کمیونٹیز بالخصوص بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر انسانی حقوق کو بھی برقرار رکھیں۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے وزیر اعظم کی ماحولیاتی معاون کے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات پر روشنی ڈالی کہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی میں انسانی حقوق کو ضم کرنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات موجودہ عدم مساوات میں اضافہ نہ کریں یا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی بنیادی انسانی حقوق کو بھی 'نمایاں طور پر نقصان پہنچاتی ہے جو زندگی، صحت، خوراک ، پانی اور ان اہم مسائل کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کی عکاسی کرتی ہے۔
سینیٹر محترمہ زہری نے آگاہ کیا کہ میں ذاتی طور پر یقین رکھتی ہوں کہ مختلف مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی خطرات کے انتظام کے ایکشن پلانز میں انسانی حقوق کا نظم و نسق آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک زیادہ اور منصفانہ نقطہ نظر کو فروغ دینے کے لیے بہت اہم ہے، خاص طور پر وسائل سے محروم افراداور بلوچستان کےپسماندہ علاقوں میں متاثرہ کمیونٹیز کے لیے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک کے جنوب مغربی حصے میں ایک بڑا اور بنجر خطہ ہونے کی وجہ سے صوبہ بلوچستان اپنی جغرافیائی خصوصیات، سماجی و اقتصادی چیلنجوں اور موجودہ ماحولیاتی دباؤ کے امتزاج کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہے۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے مزید کہاکہ زراعت پر انحصار، پانی کی کمی، محدود اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے خطے کے مسائل میں مزیداضافہ ہوگیا ہے، جو اسے موسمیاتی خطرات، خاص طور پر پہاڑوں کی تباہی، طوفانی سیلاب، سائیکلون،قحط سالی، سطح سمندر کی بلندی ، گرمی کی بڑھتی لہریں اورتیز بارشیں موسمیاتی خطرات کو انتہائی حساس بناتی ہے۔ انہوں نے ایسی حکمت عملیوں پر زور دیا جو موسمیاتی تبدیلی کے اس اہم چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مساوات اور انصاف کو ترجیح دیں تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے اور ایک منصفانہ معاشرے کو فروغ دیا جا سکے جس میں موسمیاتی لچک کی تعمیر کے لیے درکار وسائل تک مساوی رسائی ہو۔
سینیٹر زہری نے ان حقوق کو برقرار رکھنے اور ان کے تحفظ کے لیے بہترین طریقے سے مربوط اور تعاون کرنے والے ملکی اقدامات پر زور دیا اورکہا کہ انسانی سرگرمیاں نہ صرف موسمیاتی تبدیلی میں معاون ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کےلئے بھی خطرے کا باعث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین، بچے اور معاشی طور پر پسماندہ کمیونٹیز خاص طور پر متاثر ھو رہی ہیں، جن کے پاس موسمیاتی اثرات کے مطابق ڈھالنے کے ذرائع کی کمی ہے اور انہیں اپنے حقوق تک رسائی میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سینیٹرزہری نے واضح کیا کہ "آب و ہوا کا انصاف" اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے سب سے کم ذمہ دار لوگ اس کے سنگین ترین نتائج کو کس طرح برداشت کرتے ہیں۔ انہوں نے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے خطرے سے دوچار کمیونٹیز کے لیے تعاون پر زور دیا۔
دریں اثنا، وزیر اعظم کی موسمیاتی معاون رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ موسمیاتی بحران جاری رہنے سے انسانی حقوق کی ایک وسیع رینج متاثر ہو رہی ہے، جس میں زندگی کے حقوق، صحت، خوراک، صاف پانی اور صفائی، پناہ گاہ اور صحت مند ماحول شامل ہیں۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ آب و ہوا کی تبدیلی کو انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں انسانی حقوق کی پالیسیوں کو ضم کرنا اور ان کے نفاذ کو یقینی بنانے کی طرف پہلا کلیدی اقدام ہو گا جو افراد اور برادریوں پر سماجی اور اقتصادی اثرات کو مدنظر رکھے، خاص طور پر وہ لوگ جو ملک کے سب سے زیادہ کمزور علاقوں بالخصوص بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حصے ہیں۔ وزیر اعظم کی موسمیاتی معاون رومینہ خورشید عالم نے سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کو ماحولیاتی انصاف کے ہدف کے حصول کے لیے اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا کہ انسانی حقوق پر مبنی ماحولیاتی پالیسی اور ایکشن پلانز کمزور کمیونٹیز کی مشاورت سے وضع کیے جائیں خاص طور پر مشکل وقت میں صحتمند زندگی اور ماحول کے لیے لوگوں کے انسانی حقوق کے حصول میں نچلی سطح پر عمل درآمد کیا جائے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی