سی پیک کے تحت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن خصوصی اقتصادی زون کے لیے 3ہزار ایکڑ اراضی مختص کرنے کی تجویز، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبوں کے سنگم پرواقع درابن زون سی پیک مغربی روٹ سے منسلک، معدنی اور زرعی صنعتیں، فوڈ پروسیسنگ یونٹس، فارماسیوٹیکل اور سٹیل کی صنعتیںقائم ہونگی ،بیرونی سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ ہو گا۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبوں کے سنگم پر قائم کیے جانے والے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن خصوصی اقتصادی زون کے لیے تقریبا 3 ہزار ایکڑ اراضی مختص کرنے کی تجویز ہے اوراسے خیبرپختونخوا میں سب سے بڑا اقتصادی زون بنانے کا منصوبہ ہے جہاں غیر ملکیوں سمیت مقامی سرمایہ کار اپنی مصنوعات افغانستان، وسطی ایشیا اور اس سے باہرممالک کو برآمد کر سکیں گے۔خیبر پختونخواہ اکنامک زونز ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کے مارکیٹنگ اور کمیونیکیشن آفیسر ارباب ہارون نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ درابن زون ایک مثالی جگہ پر واقع ہے جو سی پیک کے مغربی روٹ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔انہوں نے کہا کہ درابن زون مربوط انفراسٹرکچر فراہم کرکے سرمایہ کاروں کو راغب کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ درابن زون میں مختلف قسم کے صنعتی یونٹس قائم کیے جائیں گے جن میں معدنی اور زرعی صنعتیں، فوڈ پروسیسنگ یونٹس، فارماسیوٹیکل اور سٹیل کی صنعتیں شامل ہیں
۔پشاور یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر فخر الاسلام نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونز کے منصوبوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور وہاں چھوٹی اور زرعی بنیادوں پر مبنی صنعتیں قائم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونز اگر کامیابی سے مکمل ہو گئے تو ملک میں ترقی اور خوشحالی کا آغاز ہو گا۔انہوں نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زون کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کار سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مصنوعات کے لیے برآمدی منڈیاں تلاش کرنے کے علاوہ 22 کروڑ لوگوں کی مقامی مارکیٹ کو پورا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زون کو پائیدار بنانے کے لیے انہیں مقامی کمیونٹی کے تعاون سے تعمیر کیا جانا چاہیے اور انہیں مقامی کمیونٹی کی ضروریات، خواہشات اور ترقی کے وژن کے مطابق ہونا چاہیے۔فخر الاسلام نے کہا کہخصوصی اقتصادی زون کی ترقی کے حوالے سے پالیسی سازوں، تاجر برادری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ پالیسیاں مرتب کی جائیں۔سی پیک کے دوسرے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان صنعتی اور زرعی تعاون میں اضافہ کا تصور کیا گیا ہے جس طرح اربوں ڈالر کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے دوران دیکھا گیا تھا جس میں مواصلات اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر توجہ دی گئی تھی۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی