i پاکستان

سعودی عرب گرومنگ مارکیٹ، کوشش ہے معیار کے مطابق ورک فورس بھجوائیں: وفاقی وزیر چوہدری سالک حسینتازترین

May 23, 2024

وفاقی وزیر مذہبی امور اور اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین نے کہا ہے کہ پاکستان سے ہر سال تقریبا ساڑھے سات سے آٹھ لاکھ نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں۔ وزارت کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے۔سعودی عرب گرومنگ مارکیٹ ہے ، کوشش ہے معیار کے مطابق ورک فورس بھجوائیں۔دورہ سعودی عرب کے اختتام پر میڈیا بریفنگ میں چوہدری سالک کا کہنا تھا کہ وزارت اوورسیز پاکستانیز کے اہداف میں بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد اور ترسیلات زر کو ڈبل کرنا شامل ہے۔ہماری کوشش ہے کہ کوالٹی افراد کو باہر بھیجا جائے۔ وہ یہاں سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ کر جائیں اور جس بھی ملک میں جائیں وہاں ویلیو ایڈ کریں، بوجھ نہ بنیں۔ وزارت ان اہداف کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی وژن 2030 کے تحت اگلے چند برسوں میں مملکت میں لاکھوں سکلڈ ورکرز اور پروفیشنل افراد کی ضرورت ہو گی۔ یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ہم خود کو تیار کریں۔چوہدری سالک حسین نے کہا کہ اب لیبر سے آگے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انہیں مینیجرز اور ہاسپٹیلیٹی انڈسٹری کے لیے پروفیشنلز، آرکیٹیکٹس، انجینیرز، ٹرینڈ ہیلتھ ورکرز وغیرہ درکار ہیں۔ اب تک ہم صرف لیبر کو فوکس کیے ہوئے تھے۔ اب یہ فوکس سکلڈ لیبر پر شفٹ کرنا پڑے گا۔ چوہدری سالک حسین نے کہا کہ سعودی عرب ایک گرومنگ مارکیٹ ہے۔ پانچ دس برسوں کے لیے ان کے جو فیوچر پلان ہیں ان میں پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوان وہاں کی مارکیٹ میں اچھی طرح اپنی جگہ بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اینڈ پر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا ہم اس کے لیے ادراوں کو فعال کرہے ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی ) کے پلیٹ فارم پر بھی اس حوالے سے بات ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے بہت جلد سعودی عرب کی ریکوائرمنٹ اور معیار کے مطابق ورک فورس بھیجنا شروع کریں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں چوہدری سالک نے کہا کہ سعودی عرب نے جو اصلاحات کی ہیں وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

اگر آپ ملک کو بدلنا چاہیں تو آپ کو دہائیوں کی ضرورت نہیں، برسوں میں یہ تبدیلی آ سکتی ہے، بات صرف پکے ارادے کی ہے۔چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ ویژن 2030 کے تحت نکلنے والی لاکھوں ملازمتوں کے لیے تیاری کی جا رہی ہے ۔ وفاقی وزیر نے اس یقین کا اظہارکیا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں کے تنازعات نمٹانے کے لیے اسلام آباد میں خصوصی عدالت کو چند مہینوں میں کام کرتا دیکھیں گے، کابینہ منظوری دے چکی ہے۔ یہ معاملہ اب سینیٹ میں ہے جو جلد منظور منظور ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں خصوصی عدالت کا قیام ایک ٹیسٹ ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو خصوصی عدالتوں کا دائرہ دیگر صوبوں تک بھی پھیلایا جائے گا اور اووسیز پاکستانیوں کے پراپرٹی کیس تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے میڈیکل اور انجیئرنگ کالجز میں اوورسیز پاکستانیو ں کے بچوں کے لیے کوٹہ مختص کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔اسی طرح اوورسیز کے مسائل کے حل اور شکایات کے ازالے کے لیے ایک پورٹل بنا رہے ہیں اب یہ نہیں ہو گا کہ شکایت آئی اور اس پر کوئی رسپانس نہیں ہوا۔ ہم اس کے لیے رسپانس ٹائم رکھ رہے ہیں۔ اوورسیز کو اس بات کا یقین ہو گا کہ ان کی شکایت پر جواب بھی ملے گا اور فالو اپ بھی ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے اعزازی قونصل ویلفیئر کی تعیناتی پر غور کیا جا رہا ہے۔چند مہینے دیں رزلٹ آنا شروع ہو جائیں گے ۔چوہدری سالک حسین نے تسلیم کیا کہ پاکستانی ایئرپورٹس پر اوورسیز ڈیسک فعال نہیں۔

ہمیں ان کو فعال کرنا ہے۔ میری تو خواہش ہے ایئرپورٹس پر اوورسیز سے جو بھی فلائٹ آئے وزارت کا ایک نمائندہ وہاں موجود رہے۔اس پورے سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے میجر ریفارمز کی ضرورت ہے۔ آپ چند مہینے اور دیں آپ کو رزلٹ ملنا شروع ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ تقریبا ایک کروڑ پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں۔ ان میں ہر ملک کے اپنے مسائل ہیں۔ خلیجی ممالک میں مختلف جرائم میں پکڑے گئے افراد جیلوں میں ہیں۔ اب قانونی مسائل کو ایڈرس کرنے کے لیے مملکت میں ایک قانونی فرم ہائر کی ہے۔ جیلوں کے معاملات کے ساتھ دیت اور دیگر چیزوں کو فعال طریقے سے دیکھا جا ئے گا۔ ایک اور سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ خلیجی ملکوں میں پکڑے جانے والے گداگر بھی ملک کی بدنامی اور کمیونٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک پورا مافیا ہے۔ خلیجی ملکوں سے گداگری میں ملوث افراد کو پکڑ کر ڈی پورٹ کیا جاتا ہے لیکن وہ نیا پاسپورٹ اور آئی ڈی بنوا کر پھر آجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا اس کے سدباب کے لیے ایسی اصلاحات لا رہے ہیں کہ گداگری کے الزام میں ڈی پورٹ ہو کر واپس آنے والے افراد کو دائمی بلیک لسٹ کر دیا جائے۔ ان کو بائیومیڑک سسٹم قبول ہی نہ کرے۔ ان کا نیا پاسپورٹ نہیں بن سکے گا۔ تین سے چار ہفتے میں یہ اقدامات مکمل ہوجائیں گے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی