عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ رپورٹرز تو بالکل درست رپورٹنگ کرتے ہیں، شام کو جو پروگرامز میں بیٹھ کر فیصلے سناتے ہیں وہ مسئلہ ہے۔ منگل کو اسلام آباد ہائی میں کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے وکیل عمر اعجاز گیلانی اور صدر ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے علاوہ وائس چیئرمین اسلام آباد بار کونسل عادل عزیز قاضی اور سینئیر وکیل اظہر صدیق عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دریافت کیا کہ کیا کوئی چیز غلط رپورٹ ہوئی جس پر پیمرا نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا؟ میرا نہیں خیال کہ ہماری ہائی کورٹ سے ایسا کچھ ہوا ہے یا رجسٹرار نے کوئی شکایت بھیجی ہو، اگر میں نے کوئی بات نہ کہی ہو اور رپورٹ ہو جائے تو کمپلینٹ پر پیمرا اس میڈیا ہاوس کو سزا دے سکتا ہے، اوپن دنیا کا زمانہ ہے، جو کچھ ہو رہا ہے عوام کو جاننے دیں، پچھلے ایک سال میں پیمرا نے غلط رپورٹنگ پر کتنی کارروائیاں کی ہیں؟ انہوں نے ریمارکس دیے کہ رپورٹرز تو بالکل درست رپورٹنگ کرتے ہیں، شام کو جو پروگرامز میں بیٹھ کر فیصلے سناتے ہیں وہ مسئلہ ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے رپورٹرز تو بہت ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرتے ہیں، میں تو کہتا ہوں 99.99 فیصد رپورٹنگ درست ہوتی ہے، پوائنٹ ون فیصد انسانی غلطی ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی مجھے یقین ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہو گا، اگر کوئی غلط کرتا ہے تو پیمرا اس کے خلاف کارروائی کرے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت جب دستخط شدہ فیصلہ جاری کر دیتی ہے تو وہ پبلک پراپرٹی بن جاتا ہے،جج پر نہیں بلکہ اس کے فیصلے پر تنقید کی جانی چاہیے، ہمیں عدالتی فیصلوں پر مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، عدالتی فیصلوں پر روشنی ڈالی جانی چاہیے کہ قانون ایسے تھا لیکن فیصلے میں یہ غلطی ہے، اس پر وکیل پیمرا نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہاوسز کو ڈائریکٹو جاری کیا گیا تھا، چینلز نے تو چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس وامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پیمرا نے تو عدالتی رپورٹنگ پر مکمل پابندی ہی لگا دی ہے، ایک وقت تھا کہ عدالت میں بیٹھے 20، 25 لوگ ہی عدالتی کارروائی سن سکتے تھے، اب میڈیا کا زمانہ ہے، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے میری یہاں دی گئی آبزرویشن امریکا میں بندہ سن سکتا ہے، مجھے پتہ ہے کہ میں نے کوئی ایک غلط بات کر دی تو پوری دنیا میں تماشا ہو گا، اب تو ہم اس طرف جا رہے ہیں کہ سب ہمیں دیکھیں دنیا کو پتہ چلے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق اب شفافیت کا زمانہ ہے، بینچ کی غلطی ہے یا بار کی، وہ بھی رپورٹ ہونی چاہیے۔ انہوں نے پیمرا کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ ہم لوگوں کے حقوق کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں نا؟ پیمرا کے پاس ایسی کیا ڈس انفارمیشن آ گئی تھی جس کی بنیاد پر یہ ہوا؟ اس پر پیمرا کے وکیل سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ پیمرا نے ڈائریکشن دی ہے کہ تحریری آرڈرز چلایا جا سکتا ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت میں دیے گئے ریمارکس عدالتی کارروائی کا حصہ ہیں، عدالتی کارروائی کو اِن کیمرہ کرنا یا نہ کرنا عدالت کا کام ہے، یہ غلط پیغام جا رہا ہے کہ پیمرا عدالتی آبزرویشنز رپورٹ کرنے پر پابندی لگا رہا ہے، عدالتی کارروائی ہمیشہ آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے، جواب بھی جمع کرایا جاتا ہے، پچھلے 45 منٹ سے اس کیس کی جو کارروائی چل رہی ہے یہ عدالتی کارروائی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عدالت میں موجود لوگوں کو کارروائی سننے دیکھنے کا حق ہے تو موجود نہ ہونے والوں کو کیوں نہیں؟ امریکا میں 1975 میں پہلا کریمنل ٹرائل ٹی وی پر دکھایا گیا تھا، کوئی نیوکلیئر فا رمولا یا دہشت گردوں سے متعلق کارروائی ہو تو عدالت کہے گی کہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، میں عوام کے حقوق کا محافظ ہوں، پوری دنیا کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی