i پاکستان

پنجاب ،کے پی الیکشن ازخودنوٹس،سپریم کورٹ کا انتخابات 90 دنوں میں کرانیکا حکمتازترین

March 01, 2023

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم دیدیا،ازخود نوٹس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ 3-2 کے تناسب سے دیا گیا ہے۔ جسٹس منظور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیال نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے، گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں، الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے، پارلیمانی جمہوریت آئین کا Silent Feature ہے،جنرل اتنخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جب کہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔بدھ کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات میں تاخیر سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے لیا گیا ازخود نوٹس پر محفوظ فیصلہ 11 بج کر 20 منٹ پر سنا دیا گیا ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ ازخود نوٹس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ 3-2 کے تناسب سے دیا گیا ہے۔

جسٹس منظور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیال نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے محفوظ کیے گئے فیصلے میں حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں عام انتخابات کرائے جائیں۔ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت کا تعین کرتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازمی ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔ گورنر آرٹیکل 112کے تحت، دوسرا وزیراعلی کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 222کہتا ہے کہ انتخابات وفاق کا معاملہ ہے۔ گورنر کو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیئے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی۔ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی۔ اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی خود کرسکتا ہے۔ اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔ الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے۔ گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا۔ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔ عدالت عظمی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے۔ 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے۔ عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمانی جمہوریت آئین کا Silent Feature ہے۔ بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔ عام انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔ جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی