سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی )میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار د یتے ہوئے الیکشن شیڈول بحال کردیا، جس میں چند تبدیلیاں کی جائیں گی، عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی اور غیر آئینی ہے،آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا،پولنگ 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوگی، الیکشن شیڈیول پر جتنا عمل ہوچکا وہ برقرار رہے گا، کاغذات نامزدگی کیخلاف اپیلیں 10 اپریل تک دائر ہوں گے، وفاقی و صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن کی معاونت کریں ، الیکشن کمیشن فنڈز ملنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لیا جائے گا، فنڈز نہ ملے تو متعلقہ حکام کو عدالت حکم جاری کرے گی، خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے فنڈز کی کمی ہوئی تو کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے قرآن کی آیت سے ابتدائی فیصلہ سنانیکا آغاز کیا۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ عدالت عظمی نے الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو انتخابات کرانیکا حکم غیر آئینی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ آئین الیکشن کمیشن کو 90 دن سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالت نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو غیر قانونی حکم جاری کیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول بحال کردیا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈز مہیا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت، چیف سیکرٹری اور آئی جی 10 اپریل تک الیکشن کی سکیورٹی کا مکمل پلان پیش کریں۔ وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔اگر وفاقی اور نگراں حکومت نے الیکشن کمیشن کی معاونت نہ کی تو کمیشن سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔پنجاب الیکشن کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کیے جائیں گے۔ اپیل فائل کرنے کی آخری تاریخ 17 اپریل ہوگی اور اپیلوں پر نظرثانی 18 اپریل تک ہوگی۔ امیدواروں کی حتمی فہرست 19 اریل کو جاری کی جائے گی۔ امیدواروں کو الیکشن نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ 11 اپریل کو الیکشن کمیشن فنڈز وصولی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ بینچ ممبران کے چیمبر میں دی جائے گی۔ فنڈز جاری نہ ہوئے تو عدالت رپورٹ کی روشنی میں مناسب حکم جاری کرے گی۔ حکومت پنجاب آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل تعاون کرے گی۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر پنجاب اور کیپی کے انتخابات میں تاخیر کے مقدمے کا فیصلہ 6 سماعتوں کے بعد گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔ منگل کو وزارت دفاع کی جانب سے سربمہر لفافے میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی، رپورٹ میں انتخابات کے لیے فوج کی عدم دستیابی کی وجوہات بیان کی گئیں۔ کیس کی پہلی تین سماعتیں پانچ رکنی بینچ نے کیں، جسٹس امین الدین نے چوتھی اور جسٹس جمال مندوخیل نے پانچویں سماعت پر کیس سننے سے معذرت کی، جس کے بعد 31 مارچ اور 3 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
آخری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا پیغام ہے اب بھی وقت ہے مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطرسیاسی ڈائیلاگ کریں اورکسی سیاسی نتیجے پرپہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جارہے ہیں کیوں کہ ہرکوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیرضروری معاملہ شروع ہوجائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججزخود منتخب کیے گئے ہوں، ہمیں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونیکا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہوگی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی پیش کی گئی وجوہات بھی دیکھیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہوچکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی، تاہم عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئیگا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی