اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دینے کے معاملے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان سے ملیں اور مشاورت سے معاملے کا حل نکالیں ،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی چہلم کے بعد اسلام آباد میں جلسہ کرسکتی ہے ،، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ چہلم کے بعد آپ کہیں گے کہ سیلاب آ گیا سردی ہو گئی۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے جلسے کا این او سی معطل کرنے کے چیف کمشنر اسلام آباد کے نوٹیفکیشن کے خلاف پی ٹی آئی رہنما عامر مغل کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے درخواست کی کہ ہمیں 27 جولائی کو جلسے کی اجازت دیدیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ فروری سے جلسے کا معاملہ چل رہا ہے اِس میں مسئلہ کیا ہے؟ ڈپٹی کمشنر نے اجازت دی، چیف کمشنر نے منسوخ کر دی، کیا کرنا چاہتے ہیں؟قائم مقام ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ چیف کمشنر نے جلسے کا این او سی معطل کیا ہے منسوخ نہیں کیا، محرم کے چالیس کے بعد جلسے کی اجازت دی جا سکتی ہے، شہریوں نے شکایات جمع کرائیں کہ ان کو نقل و حرکت میں مسئلہ ہوگا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ آپ کسی کھلی جگہ اجازت دیدیں، سیکیورٹی صورتحال اگر آ ہی گئی تھی تو انہیں بلا کر بتا تو دیتے، چہلم کے بعد آپ کہیں گے کہ سیلاب آ گیا سردی ہو گئی، دس محرم کے بعد کی بات تو سمجھ آتی ہے، چہلم تو بہت دور ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے بھی عدالت نے آرڈر کیا، جس طرح چل رہا ہے یہ کوئی مستقل حل نہیں، چیف کمشنر کو ڈائریکشن دے دیتا ہوں کہ وہ ان سے مل لیں، اِن کو بلا کر مشاورت کریں اور معاملے کا مستقل حل نکالیں، جلسے میں چالیس پچاس ہزار بندہ آ جائے گا اس سے کچھ نہیں ہونا، جلسہ ہو گا، تقریریں ہونگی، ان سے کچھ نہیں ہونا، سمجھ لیں، کوئی غلط تقریر کرے این او سی کی خلاف ورزی ہو تو آپ اسے ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔قائم مقام ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کہا کہ ہمیں سسٹم کے تحت ہی چلنا ہوتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں سسٹم کو جانتا ہوں، میں بھی اسی سسٹم کی پیداوار ہوں، سیدھا ولایت سے یہاں لینڈ نہیں کیا۔عدالت نے کیس کی سماعت پندرہ جولائی تک ملتوی کردی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی