پاکستان میں64 ہزار ہیکٹررقبہ چائے کی کاشت کیلئے موزوں ہے ،پاکستان اس وقت صرف 200 ایکڑ پر چائے کی کاشت کرتا ہے،یہ پاکستان کی چائے کی وسیع ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، پا اس سے صرف سالانہ سات سے آٹھ ٹن چائے پیدا ہوتی ہے کستان دنیا میں چائے کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ گوادر پرو کے مطابق چینی ثقافت کے تانے بانے میں چائیجڑیں گہری ہیں ۔ جیسا کہ ایک چینی کہاوت ہے، "اچھی چائے اکثر مہمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ چائے 2737 قبل مسیح کی افسانوی شخصیت شہنشاہ شینونگ نے چائے اس وقت دریافت کی جب ایک پتی حادثاتی طور پر ابلتے ہوئے پانی کے برتن میں گر گئی۔ "چا" نامی مشروب چین کی چائے کی ثقافت کی بنیاد بن گیا۔ چائے کی تاریخ چینی فلسفے، سماجی رسم و رواج اور فنکارانہ اظہار کے ساتھ اس کے گہرے تعلق کی عکاسی کرتی ہے۔ چاہے تنہائی میں لطف اندوز ہو یا دوستوں کے ساتھ اشتراک کیا جائے، چائے چینی ثقافت اور اقدار کو سمجھنے کے لئے ایک پل کا کام کرتی ہے. گوادر پرو کے مطابق پاکستان میں چائے کی کاشت کی ایک منفرد تاریخ ہے جس کا آغاز چائے کے پودے کے چین سے برصغیر پاک و ہند تک کے سفر کے طویل عرصے بعد ہوا۔ اگرچہ 1823 میں آسام میں کمرشل چائے کی کاشت کا آغاز ہوا ، لیکن پاکستان کی کوششیں 1950 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئیں ، جب ایک کسان رستم خان ایڈوکیٹ نے خیبر پختونخوا کے ہزارہ خطے میں چائے کی کاشت میں پیش قدمی کی۔ ان کے کامیاب تجربات کے نتیجے میں ایک چائے کا باغ قائم ہوا اور 1980 کی دہائی تک ان کے مشورے پر حکومت پاکستان نے اس کوشش کو آگے بڑھانے کے لیے چین کی مدد طلب کی۔
اس تعاون کے نتیجے میں شنکیاری میں نیشنل ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ٹی ایچ آر آئی) قائم ہوا، جو اب سالانہ سات سے آٹھ ٹن چائے پیدا کرتا ہے۔ تاہم، یہ پاکستان کی چائے کی وسیع ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، کیونکہ ملک دنیا میں چائے کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ گوادر پرو کے مطابق چائے کی کاشت کے لیے موزوں 64 ہزار ہیکٹر زمین کی نشاندہی کے باوجود پاکستان اس وقت صرف 200 ایکڑ پر چائے کی کاشت کرتا ہے۔ گوادر پرو کے مطابق پاکستان کے اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق مالی سال 2023-24 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان نے 140.861 ارب روپے کی چائے درآمد کی جبکہ مالی سال 2022-23 میں درآمدات 139.454 ارب روپے تھیں۔ چائے کی درآمد ات پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، لہذا گھریلو پیداوار کو بڑھانے کی واضح ضرورت ہے۔گوادر پرو کے مطابق چونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے دوسرے مرحلے میں دیگر شعبوں کے علاوہ زرعی تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، پاکستان کے پاس بڑے پیمانے پر چائے کی کاشت کے لئے چین کی مہارت اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا قیمتی موقع ہے۔ چائے، جو دونوں ممالک کی ثقافتوں میں گہری جڑیں رکھتی ہے، مہمان نوازی اور مشترکہ روایات کی علامت ہے، جو اسے چین اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی اقتصادی شراکت داری کی مناسب علامت بناتی ہے۔ مشترکہ منصوبوں اور تکنیکی معاونت کے ذریعے چائے اس وسیع تر تعاون کا ایک اہم جزو بن سکتی ہے جس سے پاکستان میں خود کفالت اور ممکنہ برآمدات کو فروغ مل سکتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی