پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے پاکستان کو فوری پٹرول سے الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیلی کو فروغ دینا چاہیے،لیکٹرک گاڑیاں پیٹرول کے درآمدی بل میں نمایا کمی ، کاربن کے اخراج کو ختم کریں گی، پاکستان کو مقامی نئی الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں صرف 8,000 سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہیں، پاکستان کو 2030 تک کم از کم 25 ہزار چارجنگ اسٹیشنز کی ضرورت ہے۔گوادر پرو کے مطابق پاکستان کو اس وقت متعدد مسائل کا سامنا ہے جن میں ماحولیاتی تباہی اور توانائی کی درآمد سمیت فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ درآمدی بل میں، پاکستان کی تیل کی درآمد مہنگی ہے، جو اس کے کل درآمدی کوٹے کا تقریباً 14 فیصد ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو بڑے پیمانے پر تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے ملک میں موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال آنے والا بدترین سیلاب اس حوالے سے آنکھیں کھولنے کے لیے مکمل طور پر کافی تھا۔ پاکستان کو جہاں ان دو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے، وہیں اسے اپنی پالیسیوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پانا چاہیے۔ گوادر پرو کے مطابق ان مسائل کے حل کے لیے پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ بڑی حد تک پاکستان کو فوری طور پر پٹرول سے الیکٹرک گاڑیوں میں گہری تبدیلی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ گنجان ٹریفک والے ایک گنجان آباد ملک کے طور پر، صرف نقل و حمل کے شعبے میں ایندھن کی کھپت کے تناسب کو ممکنہ حد تک کم کر کے ہی پاکستان درآمدی مہنگی توانائی پر اپنا انحصار بتدریج کم کر سکتا ہے۔
کیونکہ الیکٹرک گاڑیاں نہ صرف پیٹرول کے درآمدی بل کو نمایاں طور پر کم کریں گی بلکہ متعلقہ کاربن کے اخراج کو بھی ختم کریں گی۔ گوادر پرو کے مطابق جب ہم الیکٹرک گاڑیوں کی بات کرتے ہیں تو ہماری نظریں لامحالہ چین کی طرف جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین پچھلے آٹھ سالوں سے مسلسل الیکٹرک گاڑیاں بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے اور پاکستان کو مقامی نئی الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں آئرن برادر اور اس کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آئی سی ٹی بیلٹ اینڈ روڈ یونین شنگھائی نے چند روز قبل ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کے مندوبین نے ذاتی طور پر یا ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ تقریباً 100 پاکستانی اور چینی افراد نے شرکت کی جن کا تعلق الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق صنعت کے مختلف شعبوں جیسے کہ نئی توانائی، نقل و حمل، صنعتی چین کے پرزہ جات، معروف ڈیزائن اور مینوفیکچررز ایسوسی ایشنز وغیرہ سے ہے۔ گوادر پرو کے مطابق اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، عوامی جمہوریہ چین کی 12ویں این پی سی کی خارجہ امور کی کمیٹی کی نائب سربراہ ژاؤ بائی گے نے کہا کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ الیکٹرک گاڑیاں ایک لازمی حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قونصل جنرل آف پاکستان نے ان پالیسیوں کا ذکر کیا جو حکومت پاکستان نے اس صنعت کو ترقی دینے کے لیے اپنائی ہیں۔ وفاقی حکومت اور پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں نے الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس میں کمی کی ہے، ان گاڑیوں کی نہیں جو پیٹرول کو بطور ایندھن استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو راغب کرنے کے لیے، حکومت نے درآمدی چارجنگ انفراسٹرکچر پر صفر ٹیرف کو اپنایا ہے، جب کہ درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں کے بعض اجزاء پر صرف 1 فی صد ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔گوادر پرو کے مطابق اس وقت کئی چینی کمپنیاں پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
ان میں نمایاں کمپنیاں بی وائی ڈی ، چیر ی، ایم جی ، بی اے آئی سی ، ڈی ایف ایس کے ، چنگان ، جی ڈبلیو ایم ، ایف اے ڈبلیو ہیں۔ پاکستان میں کے الیکٹرک گاڑیوں کو معاشرے میں بڑے پیمانے پرنہیں اپنایا گیا ہے اور حکومت کو متعلقہ صنعتوں کے لیے سپورٹ میں مزید اضافہ کرنا چاہیے، کیونکہ توانائی کی صنعت میں اصلاحات بے شک بہت قریب ہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) نے بتایا کہ 2022 میں رجسٹرڈ موٹر گاڑیوں کی تعداد 32 ملین تھی جبکہ 34 ملین سڑکوں پر تھیں۔ ان گاڑیوں میں سے صرف 8,000 سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہیں۔گوادر پرو کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کی کم رسائی کی وجہ ایک طرف انفراسٹرکچر کی پسماندگی اور دوسری طرف الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں عوامی آگاہی کی کمی ہے۔ آگاہی کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سطح پر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے عوام کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہو کہ پٹرول گاڑیوں کی بجائے الیکٹرک کا استعمال ان کے مفاد میں ہے۔ فی الحال، پاکستان کے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے پاکستان میں ان گاڑیوں کی تیاری اور اسمبلنگ کے لیے بارہ کمپنیوں کو لائسنس جاری کیے ہیں، جن میں ایم جی موٹرز اور ڈائس شامل ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اوپر بیان کردہ عوامی آگاہی بڑھانے کے علاوہ، بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن بھی ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2030 تک کم از کم 25 ہزار چارجنگ اسٹیشنز کی ضرورت ہے۔چارجنگ کی سہولیات میں حکومت کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری بلاشبہ اگلے مرحلے میں اولین ترجیح ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی